JKNAP UK has been renamed as the National Equality Party JKGBL .
JKNAP UK has been renamed as the National Equality Party JKGBL .
یکجہتی سے کیا مراد ہے؟
5 فروری یوم یکجہتی کے تناظر میں ایک عرضداشت ۔
تحریر ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
پاکستان 1990 سے ہر سال کشمیریوں (یاد رہے جموں، کشمیر و گلگت بلتستان کے باشندوں کے ساتھ نہیں) کو چونا لگانے کے لئیے ان کے ساتھ "اظہارِ یکجہتی" کا اعلان کرنے کے لئیے یوم یکجہتی مناتا ہے ۔
یہ یوم یکجہتی (وہ بھی جعلی) صرف کشمیریوں (کشمیر وادی کے مسلمانوں) کی حد تک محدود ہے اور پاکستان کے اس یکجہتی کے اظہار سے نام نہاد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے باشندے مستثنیٰ ہیں ۔
یہ دن پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کے مطابق منایا جاتا ہے، اور میرے آج کے مضمون کا مقصد اس یکجہتی کی اصلیت کو بے نقاب کرنا ہے ۔
یکجہتی کا مفہوم "کسی دوسرے فرد یا گروہ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر اس شخص یا گروہ سے اتحاد، ہم آہنگی اور مدد کا اظہار کرنا" ہوتا ہے ۔
اس یکجہتی کا مفہوم و معانی کسی طور بھی "کسی دوسرے شخص یا گروہ کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا" نہیں ہے ۔
پاکستان جو کر رہا ہے وہ لفظ یکجہتی کے بنیادی مفاہیم اور معانی ہی کے خلاف ہے ۔ اگر میں غلط ہوں تو اہلِ علم اس نقطے پر میری دلیل کے مت قابل کوئی دلیل پیش کریں ۔
پاکستان اس یکجہتی کی آڑ میں کشمیریوں کو ان کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئیے کوئی اخلاقی یا سیاسی مدد فراہم نہیں کرتا بلکہ کشمیریوں کو یکجہتی کے نام پر اپنے مقاصد اور مفادات کے لئیے استعمال کرتا ہے ۔ یوں پاکستان نے 5 فروری کے اس ڈرامے کو جو عنوان دے رکھا ہے وہی بنیادی طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے ۔
میں اپنی بات کے ثبوت کے لئیے قارئین کی توجہ اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں کی طرف مبذول کراوں گی ۔
کشمیر (ویسے تو یہ جموں، کشمیر اور اقصائے تبتہا ہے مگر پاکستان اس کو اپنے مقاصد کے لئیے صرف کشمیر کہتا ہے اور ساری بات کو صرف کشمیر تک محدود رکھتا ہے اس لئیے میں بھی لفظ کشمیر ہی کا استعمال کروں گی) کے تنازعے کے پرامن، سیاسی، جمہوری اور منصفانہ حل کے لئیے اقوام متحدہ نے اپنی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی دونوں قراردادوں میں پاکستان سے کہا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر سے اپنی فوجیں، عسکریت پسند اور وہ تمام شہری نکالے جو غیر قانونی طریقے سے اور بلا اجازت ریاست میں زبردستی داخل ہو گئے ہیں ۔ پاکستان نے ان دونوں قراردادوں کو تسلیم کیا اور ان پر دستخط بھی کئیے ۔ اب کشمیریوں سے یکجہتی کا تقاضا تو یہ بنتا ہے کہ پاکستان اپنے وعدے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں سے اپنی تمام افواج اور شہری باہر نکالے تا کہ کشمیر کے تنازعے کا پرامن اور جمہوری حل ممکن بنایا جا سکے ۔
مگر پاکستان کی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کو دیکھئیے کہ پاکستان نے بار بار وعدہ کرنے کے باوجود اپنی افواج اور شہریوں کو ریاست میں سے نہیں نکالا ۔ اور پاکستان کے اس بدنیتی پر مبنی عمل کی وجہ سے ایک طرف جہاں بھارت کو ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے اور اسے اپنے اندر ضم کرنے کا جواز ملا وہیں پاکستان کی طرف سے کشمیر میں مسلسل مداخلت کے باعث 74 سال سے بھارت اور پاکستان باہم گتھم گتھا ہیں، خطے پر مسلسل جنگ کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں اور لاکھوں کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
پھر 5 جنوری 1949 کی قرارداد میں اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر کے منقسم حصوں کی تمام مقامی حکومتوں کو مکمل طور پر آئینی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دینے کا اصول وضع کیا ۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے اقوامِ متحدہ کے اس فیصلے کو بھی تسلیم کیا اور اس پر دستخط بھی کئیے ۔ بھارت نے تو اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا مگر پاکستان نے دستخط کرنے کے باوجود اس قرارداد پر عمل نہیں کیا بلکہ تنازعے کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھا ۔
قارئین خود فیصلہ کر لیں کہ یہ کیسی یکجہتی ہے ۔
پھر اقوامِ متحدہ نے اپنی 5 جنوری 1949 کی قرارداد میں ریاست جموں و کشمیر کے شہریوں کے بنیادی انسانی، سماجی، سیاسی، جمہوری اور مذہبی حقوق کا تعین بھی کیا اور بھارت اور پاکستان کو پابند کیا کہ وہ اپنے اپنے زیر انتظام ریاستی علاقوں کے عوام کو ان تمام حقوق کی فراہمی یقینی بنائیں ۔ اقوامِ متحدہ کے اس فیصلے پر بھی بھارت نے عملدرآمد کیا مگر پاکستان نے اس فیصلے پر دستخط کرنے کے باوجود اس پر بھی عمل نہیں کیا ۔ تو پھر کشمیریوں سے کیسی یکجہتی اور کہاں کا بھائی چارہ ؟
دراصل پاکستان گزشتہ 74 سال سے ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں اپنی منافقانہ، غاصبانہ اور توسیع پسند پالیسیوں کے باعث برے طریقے سے بے نقاب ہو چکا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کشمیر کے مسئلے پر دنیا بھر میں بالکل اکیلا اور تنہا کھڑا ہے ۔
اس مختصر وضاحت کے بعد میں اس ڈرامے کے پسِ منظر اور مقاصد پر مختصر سی بات کروں گی ۔
یہ ڈرامہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 1990 میں اس وقت شروع کیا جب مقبول بٹ کی 1984 میں شہادت کے بعد ریاست جموں و کشمیر میں آزادی و خودمختاری کے نظریات و افکار کو کافی پزیرائی مل رہی تھی ۔ آزادکشمیر میں این ایس ایف نے 11 فروری 1990 کے دن سیزفائر لائن توڑنے کی کال دے رکھی تھی اور اس کال کو عوامی سطح پر زبردست پزیرائی حاصل ہو رہی تھی؛ چنانچہ قوم پرستانہ جذبات و نظریات کے اس طوفان کو روکنے، آزادی و خودمختاری کی ابھرتی ہوئی تحریک اور قومی یکجہتی کی سوچ اور فکر کے آگے بند باندھنے اور عوام کی توجہ این ایس ایف کے لانگ مارچ سے ہٹانے کی خاطر پاکستان میں جماعت اسلامی نے 5 فروری 1990 کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کر دیا ۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے، پنجاب میں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ نواز شریف فوج کی گود میں بیٹھ کر میدان سیاست میں اترے تھے اور اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے ۔ چنانچہ نواز شریف نے جماعت اسلامی کی اس کال پر پنجاب بھر میں سرکاری سطح پر 5 فروری کو یومِ یکجہتی منانے کا اعلان کر دیا اور سرکاری تعطیل بھی کر دی ۔
یوں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء اور قیادت پر پہلی دفعہ 5 فروری 1990 کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا ڈھونگ رچایا گیا اور پاکستان کے اس فوجی موقف کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کشمیر کو آزاد کروا کے اسے پاکستان میں ضم کرنے (یا کم از کم بھارت کو زِچ کرنے) کے لئیے اپنے تمام وسائل استعمال کرے گا اور اس مقصد کی خاطر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا ۔
یوں 1990 سے پاکستان ہر سال سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے باقاعدگی سے 5 فروری کو یوم یکجہتی کا ڈرامہ کرتا ہے ۔ اور اس کا مقصد صرف اور صرف ریاست جموں و کشمیر کے اندر کامل آزادی اور خودمختاری کی سوچ اور قومی یکجہتی کی تحریک کو پروان چڑھنے سے روکنا ہے ۔
اس کے علاوہ 5 فروری کے دن کی نہ کوئی ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں اہمیت ہے نہ مقام ۔
مگر جھوٹ کی ہنڈیا بھلا کب تک چولہے چڑھتی ہے ۔
ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے 5 فروری کے اس پاکستانی ڈرامے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے ۔
چنانچہ اب پاکستان نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کی ناکامی کے بعد 5 فروری سے ہفتہ یکجہتی منانے کا اعلان کیا ہے ۔
اس ہفتے کی تقریبات 5 فروری سے شروع ہوں گی اور 11 فروری کو ختم ہوں گی ۔
مقصد ریاست جموں و کشمیر کی قومی یکجہتی کی تحریک کو گہنا کر عوام کو مخالف پٹڑی پر چڑھانا ہے ۔
میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ پاکستان کی ان تمام سرکاری تقریبات اور کاوشوں کا بائیکاٹ کریں اور پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ اس ڈھونگ یکجہتی کے ڈرامے کو بے نقاب کرنے کے لئیے منعقدہ پروگراموں میں بھرپور شرکت کریں۔
میں ریاست جموں و کشمیر کی قوم پرست سیاسی جماعتوں ان کے قائدین اور کارکنان سے بھی اپیل کروں گی کہ 5 فروری کے اس ڈرامے کا اور اپنے افکار و نظریات کے خلاف پاکستان کی اس یلغار کا متحد ہو کر مقابلہ کریں ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
Jammu Kashmir and Aksai Tibetha is a multicultural, multi ethnic and multi religious society. People belonging to all faiths and backgrounds have been happily living together in this Himalayan State for thousands of years. But in 1947 the foreign players collaborated with the State Muslim political leaders and desrroy
The new unity of nationalists has been established in azad Jammu.
Is the purpose of this unity only for the sake of rwạỷy̰ty̰ nationalism or to work for the solidarity of the state and national freedom in real meaning?
Which Nationalist are included in this alliance and why don't they join?
Was all the nationalists in
عارف شاہد کی اپنی ریاست سے محبت کے عظیم اور دلیرانہ جذبات کی ایک جھلک جن کی پاداش میں انہیں شہید کیا گیا
عارف شاہد صاحب منقسم جموں کشمیر و اقصاۓ تبتہا کو دوبارہ یکجا کرنے کے لئیے بلا لحاظ رنگ و نسل اور ذات و عقیدہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام عوام کو مل کر قومی آزادی کے حصول کے لئیے جدوجہد کرنی ہو گی -
اس عظیم قومی مقصد کو حاصل کرنے کے لئیے عارف شاہد نے پاکستانی مقبوضہ جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے پرخطر کام پر اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں
عارف شاہد نے پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا -
جون 2012 میں کیرن وادی نیلم کے مقام پر عارف شاہد نے ریاست جموں کشمیر کے تینوں منقسم حصوں کے عوام کا مشترکہ مارچ منعقد کروا کے ریاست کی قومی آزادی اور یکجہتی کی تحریک میں ایک نئی تاریخ رقم کی -
پاکستان کی خفیہ ایجنسئیوں کو منقسم ریاست جموں وکشمیر کے عوام کو باہم متحد اور منظم کرنے کی عارف شاہد کی یە سرگرمیاں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں -
چنانچە 13 مئی 2013 کی شام کو راولپنڈی میں عارف شاہد کو ان کے گھر کے گیٹ پر گولیوں سے بھون کر منقسم ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کی بحالی کی اس گرجدار اور سب سے زیادہ جاندار آواز کو ہمیشہ کے لئیے خاموش کر دیا گیا -
پاکستان نے آج تک عارف شاہد شہید کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا -
جموں کشمیر نیپ برطانیہ 13 مئی2019 کو شہید عارف شاہد کے چھٹے یومِ شہادت پر لندن میں پاکستانی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کرے گی
اور شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرے گی ۔
ثمینہ راجہ - جموں و کشمیر
دکھ کی کالی،لمبی،راتیں ،جبر کی دھوپ پر وار نہ دینا۔
جبر کا سورج ڈھل کر رہے گا؛لوگو ہمت ہار نہ دینا۔
ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا (ساری ریاست کشمیر ، جموں، وادی اور گلگت بلتستان) کبھی بھی ہندوستان یا پاکستان نہیں بنے گا ۔
پاکستان نے گلگت بلتستان کو دھوکہ اور فریب کر کے اپنے ساتھ ملایا تھا ۔ گلگت بلتستان کی ڈوگرہ حکومت سے علیحدگی میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب “شمشیر سے زنجیر تک” میں تمام تفصیلات بیان کر چکے ہیں ۔
1947 میں تو پاکستان کا گلگت بلتستان کے ساتھ کوئی جغرافیائی رابطہ تھا ہی نہیں ۔ گلگت بلتستان کی ڈوگرہ حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستان نے سازش کر کے انگریزوں کی مدد سے گلگت بلتستان پر قبضہ کیا تھا ۔
پاکستان کا جموں اور وادی کے اڑھائی اضلاع (میرپور، مظفرآباد اور آدھا پونچھ) پر بھی غاصبانہ قبضہ ہے جو پاکستان نے ریاست میں قبائلی داخل کر کے کیا تھا ۔ پاکستان کو اپنے زیرِ قبضہ ریاست کے تمام حصے چھوڑنے ہوں گے ۔
پاکستان اور بھارت ریاست جموں کشمیر و تبتہا قیامت تک نہیں اصل کر سکتے ۔
پاکستان اور بھارت جموں و کشمیر میں جاری معصوم عوام کا مزید قتلِ عام بند کرے اور ریاستی عوام کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دے ۔
پاکستانی اور ہندوستانی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور
اپنی عوام کا معیارِزندگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے ۔ وہ مظلوم اور مجبور عوام جن کی نہ عزت محفوظ ہے، نہ جان اور نہ مال ، وہ عوام جو علاج، تعلیم، انصاف کے حصول اور دہشت گردی کے خاتمے کی آس میں پل پل جیتے مرتے ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیئے ۔ دوسروں کے معاملات میں مداخلت آخر کب تک؟
میرا پاکستانی اور ہندوستانی عوام کو بھی مشورہ ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو راہ راست ہر چلانے کے لیئے دباؤ ڈالیں اور جموں کشمیر و تبتہا کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
(ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر)
I would like to highlight here that any freedom struggle or any movement for "Basic Human Rights" in Jammu and Kashmir cannot bear any fruit until the whole of the State of Jammu Kashmir and Aksai Tibetha,
spreading over 85,806 Sq Miles, is not reunited geographically, politically and administratively. Freedom is the most vague,
disputed and uncertain term in Jammu and Kashmir.
The concept of freedom widely differs among the people of different
geographical entities and from the different religious and social backgrounds.
We believe that only the concept of the reunification of the State is potentially capable of bringing stability and peace to the State.
Thus we, the people of the State, are trying to reunify the divided State and plead the international community to support our peaceful, political and democratic struggle to achieve this objective.
We believe that only a peaceful, political and democratic struggle in Jammu and Kashmir can help the people to achieve their objectives and that any sort of extremism, violence, militancy or hostile atmosphere will not deliver any good to the people.
Thus we condemn and oppose the violence, militancy and Jehadi activities in the State of Jammu and Kashmir and expect full cooperation and support from the International community.
Sameena Raja - J&K
Auditor JKNAP Uk
منگ کے واقعے کو جھوٹ بنا کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد کیا ہے؟
اصل مسئلہ 1832 کا، مہاراجہ گلاب سنگھ کا، مہاراجہ سردار رنجیت سنگھ کا، سردار سبز علی خان کا، سردار ملہی یا ڈوگرہ حکومت کا نہیں ہے ۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ منگ میں جو تختی لگائی گئی ہے
اس کے پیچھے بہت بڑی سازش کار فرما ہے
اور اس سازش کا واحد مقصد ڈوگرہ حکومت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں زہر بھر کر ڈوگرہ حکومت کی بنائی گئی ریاست کے وجود کی نفی کرنا ہے ۔
آج ریاست جموں کشمیر و اقصاۓ تبتہا کے حوالے سے صرف دو ہی جنگیں لڑی جا رہی ہیں:
1۔
ایک طرف ریاست کی تقسیم، تحقیر، تذلیل اور تطہیر کی جنگ ہے جس کا حصہ منگ میں تختی لگانے والے بھی ہیں اور یہ لوگ اپنے وطن کی تاریخ کو مسخ کرنے، جھوٹی کہانیاں بیان کرنے اور قابض قوتوں کے ساتھ ساز باز کرنے کے مرتکب ہیں ۔
2۔
دوسری جانب مادرِ وطن کے غیرت مند عوام وطن کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ لوگ اپنے وطن کی بحالی، اس کی بقا، اپنی شناخت، اپنے وجود اور اپنی آئیندہ نسلوں کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
منگ میں جن لوگوں نے جھوٹی تختی لگائی ہے وہ ریاست جموں کشمیر و اقصاۓ تبتہا کے عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں، یہ لوگ درحقیقت اپنی تاریخ کو مٹا کر اپنی آئندہ نسلوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔
ان کا مقصد صرف اور صرف ریاست کے وجود سے انکار، ریاست کی تشکیل کے عمل کو غلط ثابت کرنا اور ریاست کی جائز اور آئینی حکومت کو ظالم جابر اور غلط اور غیر قانونی ثابت کرنا ہے ۔
جہاں تک 1832 کا تعلق ہے تو 1832 میں پونچھ اور منگ کا علاقہ مہاراجہ سردار رنجیت سنگھ کے قبضے میں تھا، سردار رنجیت سنگھ لاہور دربار کا حکمران تھا اعر یہ بات تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ 1832 میں پونچھ کے اندر جو گڑ بڑ ہوئی اُس کا تعلق پنجاب اور سرحد میں یوسف زئی پھٹانوں کی بغاوت اور شاہ اسمائیل کی مذہبی بنیاد پرستی کی تحریک سے تھا ۔ یوسف زئی قبائل کو جب موجودہ پنجاب اور سرحد کے علاقوں سے مار بھگایا گیا تو وہ پونچھ کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے ۔
سردار رنجیت سنگھ نے ان کا قلع قمع کرنے کے لیے لاہور دربار کے سپہ سالار جنرل گلاب سنگھ کو بیجھا ۔
جنرل گلاب سنگھ نے کہوٹہ میں (جہاں آج کل ایٹمی پلانٹ ہے) اپنا بیس کیپ قائم کیا اور اپنے ماتحت فوجی کمانڈروں کو پونچھ کے پہاڑوں میں باغیوں کی گرفتاری اور سرکوبی کے لیئے بیجھا ۔
غیر جانب دار مؤرخین کی بیان کردہ تاریخ سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ 1832 میں جنرل گلاب سنگھ خود پونچھ کے اندر داخل ہوا ۔
منگ میں جو بھی واقعہ ہوا اور اُس کی جو بھی حقیقت ہے وہ جنرل گلاب سنگھ نے نہیں کیا ۔ بلکہ وہ جنرل گلاب سنگھ کے ماتحت افسران جو سردار رنجیت سنگھ کی فوج کے کمانڈر تھے انہوں نے کیا ۔ جنرل گلاب سنگھ کا منگ کے واقعہ کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے ۔ اور میرا یہ چیلنج ہے کہ 1832 میں کوئی بندہ منگ یا پونچھ میں گلاب سنگھ کی آمد ثابت کرے ۔
میں اس مرحلے پر اس بحث میں نہیں جانا چاہتی کے 1832 میں منگ میں جو دو چار لوگ مارے گئے اُن کے جرائم کیا تھے اور اُن کی موت کیسے واقع ہوئی ۔
لیکن یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ انسان کی کھال گائے یا بکرے کی طرح اتارنا ممکن نہیں ۔
منگ کے واقعے کو توڑ مروڑ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد صرف ریاست جموں کشمیر و اقصاۓ تبتہا کے وجود اور اس کی آئینی ڈوگرہ حکومت کے خلاف لوگوں کے ذہن میں انتشار پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ دراصل موجودہ تحریکِ آزادی کشمیر جس کو پاکستان کی ایماء، حمایت، تعاون اور مفاد کے تحت چلایا جا رہا ہے، اس کے تانے بانے اب آزادکشمیر میں قوم پرستوں کو تقسیم کرنے کی غرض سے کشمیر کی آزادی کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں اور غلط طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک 1832 سے چل رہی ہے اور سردار سبز علی خان اور سردار ملہی خان اس جدوجہد کے بانی ہیں ۔ یہ ہماری قومی تاریخ کو مسخ کرنے اور اس میں ملاوٹ کرنے کی ایک نئی سازش ہے اور تمام محب وطن قوتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سازش کے خلاف جدوجہد کریں ۔ 1832 میں نہ تو کشمیر کی آزادی کی کوئی تحریک تھی اور نہ اس سلسلے میں کسی کو کوئی سزا ملی ۔ یہ جھوٹ اب مزید نہیں چل سکتا ۔
یہاں یہ بات بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ آج سے چالیس پچاس سال قبل تک منگ میں صرف دو آدمیوں سردار سبز علی خان اور سردار ملہی خان کی کھالیں اتارنے کی داستانیں سنائی جاتی تھیں مگر پھر آہستہ آہستہ یہ نام بڑھنا شروع ہو گئے اور اب اس تختی پر 16 نام درج کر دیے گئے ہیں ۔ یہ ہماری قومی تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے ۔
ہمارے وطن کی تاریخ کو مسخ کر دیا گیا ہے اور ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کی حفاظت کریں، اسے جھوٹ اور غلطیوں سے پاک کریں اور ریاستی عوام کے سامنے سچے واقعات اور اصل تاریخی حقائق پیش کریں ۔
ہم کسی قبیلے یا کسی برادری کے حامی یا مخالف نہیں ہیں ۔
ہم صرف اور صرف ریاست کے وارث اور اس کی بحالی کی جہدوجہد کے داعی ہیں، ہم کسی کی خوشی اور دکھ سے قطع نظر ہمیشہ عوام کے سامنے سچ لاتے رہیں گے ۔
سچ کا سفر رہے گا ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
کارگل ۔ سکردو روڈ سمیت ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے تمام قدیمی اور قدرتی راستے آمد و رفت کے لیئے کھولے جائیں ۔
کرتار پور سرحد کو مذہبی زائرین کے لیئے کھول دینے کے بعد کارگل سکردو ، استور بارامولا اور شاردہ پیتھ کو نہ کھولنے کا کوئی جواز اور منطق موجود نہیں ۔
اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت پاکستانی اور بھارتی عوام کے لیئے مختلف رویے رکھتے ہیں اور ریاست جموں و کشمیر و اقصائے تبتہا کے عوام کے لیئے مختلف رویے رکھتے ہیں ۔ ریاستی عوام کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ انسان نہیں اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہیں ۔
اگر سکھ زائرین کے لیئے مذہبی اہمیت کے مقام کی زیارت کی خاطر پاکستان اور بھارت کی بین الاقوامی سرحد پر کرتار پور کو آمدورفت کے لیئے کھولا جا سکتا ہے تو پھر ہندو زائرین کے لیئے کشمیر میں شاردہ پیتھ کو بالکل اسی اصول پر کیوں نہیں کھولا جا سکتا ۔
اور کارگل سکردو روڈ کو بالکل اسی اصول پر بودھ زائرین کے لیئے کیوں نہیں کھولا جا سکتا ۔
یہ امتیازی سلوک ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ کیوں؟
میں ریاست بھر کے عوام سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ریاست کے اندر موجود تمام قدرتی راستوں کو آمد و رفت کی غرض سے کھولنے کے کیئے ایک منظم تحریک کا آغاز کریں ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیرکے
مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کےساتھ 26 اکتوبر
1947
کے الحاق کے بعد بھی 20 جون 1949 تک سری نگر حکومت کا سربراہ رہا ۔
دراصل مہاراجہ کے الحاق کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب تک جنگ بندی نہیں ہو جاتی مہاراجہ حکومتی معاملات کو خود دیکھے گا ۔
جو بندہ 22 اکتوبر 1947 کے حملے کے بعد 20 جون 1949 تک خود حکومت کا سربراہ رہا
اس کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بھاگ گیا تھا ۔
20 جون 1949 کے بعد مہاراجہ حکومت اپنے جانشین ڈاکٹر کرن سنگھ کو دے کر خود حکومتی معاملات سے علیحدہ ہو گیا ۔
اور 20 جون 1949 سے 17 نومبر 1952 تک ریجنٹ کے طور پر ڈاکٹر کرن سنگھ حکومت کا سربراہ رہا ۔ پھر 17 نومبر 1952 سے 30 مارچ 1965 تک ڈاکٹر کرن سنگھ ریاست کا منتخب صدر رہا ۔ 30 مارچ 1965 کو جب صدر ریاست کا منصب ختم ہوا تو ڈاکٹر کرن سنگھ کو گورنر بنا دیا گیا اور اس منصب پر ڈاکٹر کرن سنگھ 15 مئی 1967 تک فائز رہا ۔
گویا 22 اکتوبر 1947 کے پاکستانی حملے کے بعد لگاتار 15 مئی 1967 تک مہاراجہ ہری سنگھ اور پھر اس کا جانشین مسلسل حکومت کا سربراہ رہا ۔ تو یہ کس طرح کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ بھاگ گیا تھا؟ 22 اکتوبر کے حملے کے بعد تقریباً پونے دو سال تک تو مہاراجہ خود سری نگر حکومت کا سربراہ رہا ۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چند سو قبائلیوں کے حملے کے بعد مہاراجہ بھاگ گیا تھا ان کو میں کیا نام دوں؟
ملکی تاریخ مسخ کرنے کی اس سے بڑی مذموم سازش اور کیا ہو گی
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
اس کا کیا مطلب ہے ؟؟؟
میں پہلے بھی بہت دفعہ عرض کر چکی ہوں کہ ریاست جموں کشمیر و تبتہا ایک کثیر ثقافتی، کثیر مذہبی اور کثیر قومیتی وحدت ہے ۔
دنیا میں کسی بھی وحدت کو برقرار رکھنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
1 ۔ اس وحدت کے اندر موجود تمام اکائیوں کو باہم مربوط طریقے سے ایک دوسرے کے اندر ضم کر کے ایک ایسی مضبوط مرکزیت تشکیل دی جائے جو تمام اکائیوں کے انفرادی وجود اور شناخت کو رفتہ رفتہ ختم کر کے صرف مرکزی شناخت کو پروان چڑہائے ۔
2 ۔ کسی بھی وحدت کے اندر موجود تمام انفرادی اکائیوں کو ان کی شناخت اور معروضی وجود کے مطابق پروان چڑہایا جائے اور ان کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے باہمی طور پر قابل قبول اور معروضی طور پر قابل عمل ایک ایسی لچکدار اور ڈھیلی ڈھالی مرکزیت قائم کی جائے جس کے اندر تمام انفرادی اکائیاں اپنی اپنی الگ شناخت اور وجود کے مطابق اپنی انفرادی خواہشات کی روشنی میں باہم مل جل کر رہیں ۔
اب قارئین کرام خود سوچ سمجھ لیں کہ ریاست جموں کشمیر و تبتہا کے معروضی حالات میں کس طرح کی وحدت کے متمنی ہیں اور عملی طور پر کشمیر طرح کی وحدت کا قیام ممکن ہے ۔
درج بالا دو ممکنات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئیے ہمیں ریاست جموں کشمیر و تبتہا کی مرکباتی اکائیوں لداخ، گلگت، جموں، بلتستان اور کشمیر کی انفرادی صورتحال اور یہاں کے لوگوں کی خواہشات کو مدنظر رکھنا ہو گا ۔
قارئین جانتے ہی ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو کشمیر، کشمیری شناخت اور کشمیری قیادت کے ساتھ کیا تحفظات ہیں ۔
اب جب گلگت بلتستان کو باقیماندہ ریاست سے کاٹنے کی سازشیں زوروں پر ہیں تو ایسے میں گلگت بلتستان اور ریاست جموں و کشمیر کی یونین کی بقاء کے تناظر میں Save Kashmir کا نعرہ لگانا بہت عجیب اور ناقابل فہم عمل ہے ۔
اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا جسے اب کشمیر سے الگ کیا جا رہا ہے اور ہم نے کشمیر کے وجود کو بچانا ہے ۔
وہ تمام قارئین کرام جن کی نظر ریاست جموں کشمیر و تبتہا کی تاریخ، وحدت، تقسیم اور موجودہ سیاست پر ہے وہ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کشمیر کی شناخت سے کتنی چڑ ہے ۔
ایسے میں Save Kashmir کا نعرہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو اور زیادہ متنفر کر کے اپنے سے دور کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔
کشمیر کے نام پر گلگت بلتستان کے عوام کبھی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوں گے ۔
ہمیں اپنی تاریخی یونین کو بچانے کے لئیے ایک نئے عمرانی معائدے کی ضرورت ہے ۔
اس لئیے Save Kashmir نہیں بلکہ Save the Union کا نعرہ لگایا جائے ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں کشمیر و تبتہا :-
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
کیا پاکستان نے شملہ معائدے کے ذریعے طے نہیں کر رکھا کہ ریاست کے مستقبل کا تعین بھارت کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے کیا جائے گا؟
تو پھر گزشتہ ستائیس سال سے اسلحہ اور پیسہ دے کر ریاستی عوام کو مسلسل مروانے کی پالیسی کیوں جاری رکھی گئی ہے؟
ریاست کے جو حصے پاکستان کے قبضے میں ہیں وہاں ایکٹ 74 کے ذریعے پاکستان کی حکمرانی قائم کی گئی ہے ۔
کیا بھارت کے زیرِ انتظام ریاستی علاقوں کو پاکستان کی نسبت آرٹیکل 370 کی وجہ سے زیادہ بہتر آئینی حقوق، شہری اور سیاسی آزادیاں اور اپنے وسائل پر اپنا اختیار حاصل نہیں ہے؟
کیا پاکستان نے کبھی گلگت بلتستان کے وسائل پر گلگت بلتستان کے عوام کا حق تسلیم کیا ہے؟
بابا
جان اور انکے ساتھیوں کو آپنے عوام کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کی پاداش میں چالیس چالیس سال تک جیل میں ڈال دیا گیا ہے – کیا یہی بھائی چارہ اور اسلامی اخوت ہے؟
ککیا گلگت بلتستان کے عوام کو انکے ان وسائل کا معاوضہ دیا جاتا ہے جو پنجاب کی تعمیر و ترقی پر صرف کیئے جا رہے ہیں؟
یہ ساری چوری اور سینہ زوری کیوں؟
کیا سیاسی اور جمہوری آزادیوں، بنیادی انسانی حقوق اور تعلیم، علاج اور روزگار کا حق مانگنا جرم ہے؟
International Day of Human Rights.
December 10 is International Human Rights Day. On this day in 1948, the United Nations General Assembly adopted the Universal Declaration of Human Rights. Each December 10th, it’s important for us to reflect on the important gains we have made in advancing human rights in our province that flow directly from this declaration. It’s also critical to recognise that we’re still a long way from true equality for all.
10th of December دسمبر کی 10 تاریخ انسانی حقوق کا عالمی دن ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔ آج دسمبر کی 10 تاریخ ہے اور دنیا آج انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہی ہے ۔ یہ دن 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے انسانی حقوق کے اعلامئے کو یو این چارٹر کا حصہ بنائے جانے کی منظوری دیے جانے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے میں ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے عوام کی توجہ ریاست کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں اور قارئین کو دعوت فکر دیتی ہوں کہ وہ خود تجزیہ کریں کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے ۔ کسی بھی محتاط اور ذمہ دارانہ غور و فکر کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہمارے وطن میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ ہمارا یہ قومی اور سیاسی فریضہ بنتا ہے کہ ہم اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئیے فوری جدوجہد کی خاطر کوئی لائحہ عمل مرتب کریں ۔ ہمارا وطن انتظامی اور سیاسی طور پر چار حصوں میں تقسیم ہے ۔ اس میں سے چین کے زیر انتظام حصہ (جو پھر دو حصوں اقصائے چن اور شکسگام پر مشتمل ہے) تو انسانی حقوق کے معاملے سے اس لئیے مستثنی' ہے کہ وہاں کوئی مستقل آبادی موجود نہیں ۔ تاہم ہمارے وطن کے باقی کے تین حصے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر و لداخ، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان بہرصورت انسانی حقوق کے مسائل سے دوچار ہیں ۔ میں انتظامی اور سیاسی طور پر منقسم اپنے ملک کے ان تینوں حصوں میں انسانی صورتحال کا یہاں جائزہ پیش کروں گی ۔ کسی بھی سماج میں بنیادی انسانی حقوق کے تصور کو سمجھنے کے لئیے اس کے عناصر ترکیبی کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں: 1۔ آزادی 2۔ امن 3۔ عدل و انصاف 4۔ مساوات 5۔ قانون کی حکمرانی 6۔ خوشحالی 7۔ عزت و احترام 8۔ اعتماد 9۔ امید ۔۔۔ میں اب ان عالمی پیمانوں کے معیار پر ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کی صورتحال کا جائزہ لیتی ہوں ۔ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کا آئینی حصہ ہے ۔ یہ علاقے ریاست کے صوبے تبتہا (لداخ) کا حصہ ہیں اور ماضی کے متعدد راجواڑوں اور ریاستوں کو باہم ملا کر ڈوگرہ دور میں ایک مشترکہ و متحدہ انتظامی اکائی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے مگر 1947 میں انہیں تقسیم کر دیا گیا اور تب سے یہ علاقے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں ۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کو شاعرانہ اصطلاح میں "آزادکشمیر" کہا جاتا ہے ۔ یہ علاقے درحقیقت ریاست کے صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے ڈوگری بولنے والے علاقے ہیں جو اب دس اضلاع میں تقسیم ہیں ۔ ان میں سے ضلع مظفرآباد، ضلع جہلم وادی اور ضلع نیلم وادی اگرچہ انتظامی طور پر ریاست کے صوبہ کشمیر کا حصہ تھے مگر یہ سب ڈوگرہ زبان، تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہیں ۔ گویا نام نہاد آزادکشمیر جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ سب کے سب ڈوگری زبان کے مختلف لب و لہجے (dialects) بولنے والے علاقے ہیں اور تمدنی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے یہ علاقے کشمیر وادی کا حصہ نہیں ہیں ۔ ریاست کے پاکستان کے زیر انتظام ان حصوں کے علاوہ جموں، لداخ اور کشمیر وادی بھارت کے کنٹرول میں ہیں ۔ ریاست کے ان تمام علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک معمول کی بات ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق کے تمام اجزائے ترکیبی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور منسلک ہیں اور کسی ایک کے بغیر کسی دوسرے عنصر کا وجود مشکل ہوتا ہے ۔ 1۔ آزادی: جہاں تک آزادی کا تصور ہے تو 1947 سے ہمارے وطن کے عوام کو آزادی کے جگنو کے پیچھے بھگایا جا رہا ہے ۔ پاکستان نے جہاں ایک طرف اپنے زیر انتظام علاقوں کے عوام کو گولی دے رکھی ہے کہ ان علاقوں کے سب لوگ مسلمان ہیں اور انہوں نے 1947 میں ایک ظالم ہندو حکمران سے آزادی حاصل کر کے اپنا مستقبل ایک اسلامی ملک کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے وہیں بھارت کے زیر انتظام علاقوں کی مسلمان آبادی کو پاکستان مسلسل اکسا رہا ہے کہ وہ لوگ غیر مسلموں کے تسلط میں ہیں اور ان غیرمسلموں کے خلاف جہاد کر کے ان سے آزادی حاصل کرنا اور پھر پاکستان میں شامل ہونا ان کا بنیادی مذہبی فریضہ ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے عوام کو کوئی آزادی حاصل نہیں ۔ نہ بولنے کی آزادی، نہ لکھنے کی آزادی، نہ مذہب کی آزادی، نہ زبان کی آزادی، نہ اپنے وسائل پر ملکیت کی آزادی، نہ اپنی شناخت کی آزادی، نہ اپنے لئیے قانون سازی کی آزادی اور نہ اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی آزادی ۔ جہاں تک بھارت کے زیر انتظام علاقوں کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ لوگ پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر آزادیوں سے مستفید ہو رہے ہیں مگر پھر بھی کامل آزادی کا تصور وہاں بھی محال ہے ۔ ببارت کے زیر انتظام علاقوں میں بھی عوام کو اپنے وسائل پر ملکیت، اپنے مستقبل کے تعین کے حوالے سے آپشنز اور اپنے لئیے قانون سازی کی آزادی کے حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ 2۔ امن معاشرے میں امن کے لئیے کامل آزادی کا وجود ضروری ہوتا ہے ۔ جہاں آزادی نہیں ہوتی وہاں امن ممکن نہیں ۔ کسی بھی معاشرے میں امن کے قیام کے لئیے آزادی کے علاوہ قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف اور مساوات کا قیام بھی لازمی شرائط ہیں ۔ ریاست جموں و کشمیر میں کے پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں تو شروع سے ہی ان میں سے کوئی بھی عنصر موجود نہیں ۔ لیکن 1990 سے بھارتی زیر انتظام علاقوں میں بھی اب سماجی اور سیاسی امن مفقود ہے ۔ وجوہات کچھ بھی ہوں کسی بھی جگہ امن کا قیام ریاستی مشینری کا بنیادی فریضہ اور عوام کا بنیادی انسانی حق ہوتا ہے اور بھارتی زیر انتظام علاقوں کے عوام بھی امن سے محروم ہیں ۔ 3۔ عدل و انصاف پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں حکومتی اور محکمانہ کرپشن، اقرباء پروری، برادری و قبیلائی تعصبات، سیاسی رشوت ستانی، سیاسی بنیادوں پر امتیازی سلوک، نامناسب قوانین اور جانبدارا عدلیہ کے باعث عوام عدل و انصاف کو ترس رہے ہیں ۔ اس ضمن میں اگرجہ بھارتی زیر انتظام علاقے نسبتاً بہتر آئینی و قانونی کیفیت میں ہیں تاہم وہاں بھی علاقائی و مذہبی امتیاز، اور مرکزی و ریاستی مفادات کے ٹکراؤ کے باعث عدل و انصاف کی صورتحال مثالی نہیں ہے ۔ 4۔ مساوات مساوات کے تصور کو سماجی، قانونی اور معاشی طور پر تقسیم کر کے سمجھا جا سکتا ہے ۔ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے تمام علاقے سماجی اور معاشی عدم مساوات کا شکار ہیں ۔ اگرچہ قانونی مساوات کے شعبے میں بھارتی زیر انتظام علاقوں کو کسی حد تک پاکستانی زیر انتظام علاقوں پر برتری حاصل رہی ہے مگر 1990 سے جاری کشمیر وادی کی عسکری تحریک نے اس برتری کو بھی اب مٹا دیا ہے اور سیز فائر لائن کے دونوں اطراف اب صورتحال کم و بیش ایک جیسی ہے ۔ 5۔ قانون کی حکمرانی قانون کی حکمرانی کا تعلق عدلیہ کی آزادی، عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات کار اور عمومی سماجی رویوں پر ہوتا ہے ۔ پاکستان چونکہ ایک غیر جمہوری اور عسکری ریاست ہے اس لئیے پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں تو قانون کی حکمرانی کا تصور ممکن نہیں ۔ مگر بھارتی زیر انتظام علاقوں میں بھی گزشتہ تیس سالوں سے صورتحال نہایت ابتری کا شکار ہے ۔ اور یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ سیز فائر لائن کے دونوں اطراف میں قانون کی بالادستی اور فراہمی کا تصور صرف کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔ عملی طور پر ہمارا ملک اس نعمت سے محروم ہے ۔ 6۔ خوشحالی جہاں تک خوشحالی کے تصور کا تعلق ہے تو یہ صرف معاشی خوشحالی تک ہی محدود نہیں ۔ معاشی خوشحالی سے زیادہ سماجی خوشحالی اہم ہوتی ہے اور سماجی خوشحالی کا قیام ریاست اور عوام کے باہمی تعلقات کی نوعیت اور آئین و قانون کی پیروی اور عملداری سے جنم لیتا ہے ۔ ہمارا وطن معاشی خوشحالی کی دولت سے تو اس لئیے محروم رہا ہے کہ ہمارے قدرتی اور انسانی وسائل ہماری اپنی ملکیت میں نہیں رہے ۔ ہمارا ہمیشہ معاشی و اقتصادی استحصال ہوا ہے اور ریاست کی دولت کو ریاست کے عوام پر خرچ نہیں کیا گیا ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے تمام حصوں میں عوام اور حکمرانوں کے تعلقات کار بھی کبھی بھی مثالی نہیں رہے ۔ ہمارے حکمران اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھنے کے بجائے ان کا حاکم سمجھتے رہے ہیں اور بیرونی قابضین نے اس تصور کو اور زیادہ تقویت دی ہے ۔ ان عوامل کے باعث ہمارے وطن کے تمام حصے معاشی و سماجی خوشحالی سے بدستور ناآشنا ہیں ۔ 7۔ عزت و احترام 8۔ اعتماد 9۔ امید سماجی امید و سکون، معاشرتی اعتماد و خوداعتمادی اور باہمی عزت و احترام کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ جہاں تک عوام کی عزت و احترام کا تعلق ہے تو اس کا انحصار آئین و قانون کی بالادستی و فراہمی، تعلیم و علم و ادب کی کیفییات اور بنیادی سماجی رویوں کی نوعیت پر نوعیت پر ہوتا ہے ۔ معاشرے میں باہمی عزت و احترام کی موجودگی معاشرتی اعتماد اور امید کو جنم دیتی ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں کسی انسان کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنا، گاڑی کا ہارن بجانا اور اونچی آواز میں موسیقی سننا بھی دوسروں کی عزت و احترام کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ تمام سرکاری دفاتر اور حکومتی شعبوں میں عوام کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے ۔ مگر ہماری ریاست میں حکومت ہو یا معاشرے کے بااثر افراد وہ دوسروں کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سماجی و نفسیاتی عارضہ ریاست کے تمام حصوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس لئیے نہ ہی تو ہمارے ملک میں باہمی عزت و احترام کا وجود ہے اور نہ ہی سماجی و انفرادی اعتماد و خوداعتمادی اور امید و سکون جنم لے سکتے ہیں ۔ اس تجزیے کی بنیاد پر میں یہ رایے قائم کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارے ملک میں بنیادی انسانی حقوق دستیاب نہیں اور ابھی عوام کو ان کے حصول کے لئیے ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ بھی ہماری خاطرخواہ مدد کرنے سے عاجز ہیں ۔ تحریر: ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
The National State Narrative.
Produced by Sameena Raja - J&K
Main Features of the State Narrative are as under:
1.
State of Jammu and Kashmir was founded on 16 March 1846 through the Treaty Of Amritsar. There was no State prior to the 16th March 1846 and the claim that our country existed before 16th March 1846 is false.
2.
Those who consider the Amratsar Treaty as a sale deed basically negate the National, Political and State foundations.
3.
Maharajah Gulab Singh is the founder of our State. We are citizens of the country which was created by Mahrajah Gulab Singh. All citizens of this country are called State Subjects and we all must identify ourselves with this State identity.
4.
This State was named as the State of Jammu and Kashmir and later on as the areas of Gilgit Baltistan & Ladakh were annexed to the State it was given the name as the State of Jammu Kashmir and Aksai Tibetha. State boundaries were finally determined in 1885, total area of the State was pronounced to be 85806 sq miles. These boundaries were recognised by Britain, China and Russia.
5.
4th Dogra king Maharajah Hari Singh formulated State Subject Rules in 1927. These rules established the State as a National State. These laws must be protected and preserved in all parts of the divided State, otherwise our national, political, social and cultural existence will be diluted and diminished.
6.
In 1947, while the Subcontinent was being divided into two countries on religious grounds, 564 princely states failed to survive this onslaught and lost their political and national existance except the State of Jammu and Kashmir. The State ruler Mahrajah Hari Singh took all necessary and very wise steps to defend the State. He refused to join either India or Pakistan and decided to establish the country as an independent State. Mahrajah took all political, legal and constitutional steps to protect the State's independence and so became the founder of the ideology of the Independent State of Jammu and Kashmir. Had the Mahrajah decided to join either India or Pakistan, there would have been no concept of our independent country and there would have been no political struggle to keep the State independent of Pakistan and India. It was only Mahrajah who conceived this idea of an independent country and then practically fought for his ideology. Thus Mahrajah is undoubtedly the founder of the ideology of an independent State of Jammu and Kashmir.
7.
The puppets of Britain, Pakistan and India joined hands to defeat the Mahrajah and conspired to divide the State. Pakistan invaded the State on 22nd October 1947 which forced State government to seek Indian military help in exchange of temporary accession treaty which was signed on 26 October 1947. Had there been no invasion by Pakistan, Mahrajah would have never executed an agreement with the Indian government to enter the State. Thus Indian military arrival in the State was enforced by Pakistan who left no choice for Mahrajah but to seek Indian military help which later on transformed into Indian control.
8. The State government handed in only Defence, Foreign Affairs and Communication portfolios to the Indian Union and in all other matters the State was internally independent under the accession treaty having its own President, Prime Minister, Judicial System, Constitution and National Flag. India took control of the State through the elected parliament of the State and all these steps are not rectified by the people of the whole State, thus they are illegal and unconstitutional and must be challenged at all forums.
9. The State is a multi ethnic, multi religious and multi nationalities entity. The State can only be reunified through a new social contract among all the religious, geographic and ethnic entities. This new social contract must constitutionally guarantee the control of all legislative and economic affairs to the religious, ethnic, cultural and geographic entities except the defence, foreign affairs and telecommunications. The new social contract must be based on the principles of complete economic, legislative, religious and constitutional independence for all the State entities.
10. The State is now divided among China, India and Pakistan and can only be reunited through peaceful democratic and political struggle. Any armed, militant, violent or Jehadi struggle cannot secure reunification and independence of our country.
11.
Reunification of the State is the prime political objective at the moment and no other option can guarantee the protection of identity, economic prosperity and political stability for the people of Jammu and Kashmir. Any independence struggle without the reunification of the State would only bring about further divisions and demise of the State. Since 1947 there has been no real struggle for the reunification of the State and rest of the movements have all failed due to the lack of reunification demand.
12.
The State has tremendous natural resources and if these resources are spent on the people of the State, they can become richest and most prosperous nation of the region. Thus control of all our natural and economic resources must be the core demand of any political struggle.
13.
National And political autonomy of the State can only be restored under an exclusive secular social set up. No other political system or social philosophy can bring about peace and reunification in the State. The State must adopt the total and uncompromising laissez faire policy of religious independence. Only such a secular policy can save and secure the State reunification.
Our basic policy should be that the religion is a private matter and State equally belongs to each and everyone.
14.
People of the State can only reunite if an indigenous struggle is organised under the State identity and all its National Features which existed on 15 August 1947. If the political struggle is not organised under the national flag and the State name of the 1947, its ought to fail as no consensus can be achieved on these very sensitive issues before reunification and formation of the independent State parliament. Only an elected parliament of the reunified State could take decisions to bring about any changes to such sensitive national denominations.
Sameena Raja - Jammu and Kashmir.
2018 رخصت ہوا ۔۔۔
زندگی کا ایک سال اور بیت گیا ۔۔۔
آئیے ہم سب اس سال کا تجزیہ کریں کہ ہم نے بحثیت قوم کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہم نے اپنے ملک میں
بنیادی انسانی، سیاسی، آئینی، قانونی اور شہری حقوق کو بہتر بنانے کے لئیے کیا کردار ادا کیا؟
اور پھر اسی تناظر میں 2019 کے سال کے لئیے کچھ عہد و پیمان کرتے ہیں ۔
ہر آدمی اپنے معروضی حالات میں وطن اور قوم کے لئیے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرنے کا عہد کرے جس سے ملک و قوم کے سیاسی، سماجی، آئینی، معاشی اور قانونی مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہوں ۔
میری دعا ہے کہ اللہ پاک یہ نیا سال ہماری ریاست کے تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان اتفاق، باہمی محبت، بھائی چارے اور اخوت کے قیام کا سال بنا دے ۔
اللہ کرے یہ نیا سال ریاست جموں کشمیر و تبتہا کے لیے امن اور خوشحالی کا پیغام لیکر آئے ۔ آمین
ظلم اور ناحق خون کشمیر وادی میں روزمرہ کا معمول ہے ۔
واقعے کی ذمہ داری جس پر بھی عائد ہوتی ہو حکومت اور بھارتی ایجینسیاں اس صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دی جا سکتیں ۔
ہم اس ناحق خون پر بھارت اور ریاستی حکومت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان حالات کو بھارت کے جمہوری چہرے پر سیاہ دھبہ قرار دیتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور تشدد و جوابی تشدد کی راہ ترک کر کے بات چیت کا عمل شروع کیا جائے ۔
مسئلے کا حل جب بھی ہوا بات چیت کے ذریعے ہی ہو گا ۔
فائرنگ اور جوابی فائرنگ خانہ جنگی کی علامت ہے اور کسی مسئلے کا حل نہیں ۔
تمام فریقین کو اب اس خون خرابے کو خیرباد کہنا ہو گا ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
:-ریاست کی ذمہ داریاں اور عوام کے حقوق
ہماری ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ ہماری ریاست 1947 سے تقسیم ہے اور بیرونی ممالک کے قبضے میں ہے ۔ ریاست کا اپنا کوئی اقتدارِ ا علی' نہیں ۔۔۔ ایسے میں ریاست کی زمہ داریوں پر بات کرنا بہت قبل از وقت ہے ۔
تاہم عوام کے حقوق پر بات کی جانی چاہئیے ۔
اگرچہ عوام کے حقوق کی مکمل پاسداری ریاست کے وجود کی بحالی اور اقتدارِ اعلی' کے دوبارہ حصول سے ہی مشروط ہے تاہم درمیانی عرصے میں عوامی حقوق کی وکالت کی واحد صورت عوام کے ساتھ حقیقی ربط و تعلق کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
اس تمہید کے بعد میں ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے عوام کی توجہ ریاست کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں اور قارئین کو دعوت فکر دیتی ہوں کہ وہ خود تجزیہ کریں کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے ۔ کسی بھی محتاط اور ذمہ دارانہ غور و فکر کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہمارے وطن میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ ہمارا یہ قومی اور سیاسی فریضہ بنتا ہے کہ ہم اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئیے فوری جدوجہد کی خاطر کوئی لائحہ عمل مرتب کریں ۔
ہمارا وطن انتظامی اور سیاسی طور پر چار حصوں میں تقسیم ہے ۔ اس میں سے چین کے زیر انتظام حصہ (جو پھر دو حصوں اقصائے چن اور شکسگام پر مشتمل ہے) تو انسانی حقوق کے معاملے سے اس لئیے مستثنی' ہے کہ وہاں کوئی مستقل آبادی موجود نہیں ۔
تاہم ہمارے وطن کے باقی کے تین حصے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر و لداخ، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان بہرصورت انسانی حقوق کے مسائل سے دوچار ہیں ۔
میں انتظامی اور سیاسی طور پر منقسم اپنے ملک کے ان تینوں حصوں میں انسانی صورتحال کا یہاں جائزہ پیش کروں گی ۔
کسی بھی سماج میں بنیادی انسانی حقوق کے تصور کو سمجھنے کے لئیے اس کے عناصر ترکیبی کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:
1۔ آزادی
2۔ امن
3۔ عدل و انصاف
4۔ مساوات
5۔ قانون کی حکمرانی
6۔ خوشحالی
7۔ عزت و احترام
8۔ اعتماد
9۔ امید ۔۔۔
میں اب ان عالمی پیمانوں کے معیار پر ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کی صورتحال کا جائزہ لیتی ہوں ۔
گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کا آئینی حصہ ہے ۔ یہ علاقے ریاست کے صوبے تبتہا (لداخ) کا حصہ ہیں اور ماضی کے متعدد راجواڑوں اور ریاستوں کو باہم ملا کر ڈوگرہ دور میں ایک مشترکہ و متحدہ انتظامی اکائی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے مگر 1947 میں انہیں تقسیم کر دیا گیا اور تب سے یہ علاقے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں ۔
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کو شاعرانہ اصطلاح میں "آزادکشمیر" کہا جاتا ہے ۔ یہ علاقے درحقیقت ریاست کے صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے ڈوگری بولنے والے علاقے ہیں جو اب دس اضلاع میں تقسیم ہیں ۔ ان میں سے ضلع مظفرآباد، ضلع جہلم وادی اور ضلع نیلم وادی اگرچہ انتظامی طور پر ریاست کے صوبہ کشمیر کا حصہ تھے مگر یہ سب ڈوگرہ زبان، تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہیں ۔ گویا نام نہاد آزادکشمیر جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ سب کے سب ڈوگری زبان کے مختلف لب و لہجے (dialects) بولنے والے علاقے ہیں اور تمدنی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے یہ علاقے کشمیر وادی کا حصہ نہیں ہیں ۔
ریاست کے پاکستان کے زیر انتظام ان حصوں کے علاوہ جموں، لداخ اور کشمیر وادی بھارت کے کنٹرول میں ہیں ۔
ریاست کے ان تمام علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک معمول کی بات ہے ۔
بنیادی انسانی حقوق کے تمام اجزائے ترکیبی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور منسلک ہیں اور کسی ایک کے بغیر کسی دوسرے عنصر کا وجود مشکل ہوتا ہے ۔
1۔ آزادی:
جہاں تک آزادی کا تصور ہے تو 1947 سے ہمارے وطن کے عوام کو آزادی کے جگنو کے پیچھے بھگایا جا رہا ہے ۔ پاکستان نے جہاں ایک طرف اپنے زیر انتظام علاقوں کے عوام کو گولی دے رکھی ہے کہ ان علاقوں کے سب لوگ مسلمان ہیں اور انہوں نے 1947 میں ایک ظالم ہندو حکمران سے آزادی حاصل کر کے اپنا مستقبل ایک اسلامی ملک کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے وہیں بھارت کے زیر انتظام علاقوں کی مسلمان آبادی کو پاکستان مسلسل اکسا رہا ہے کہ وہ لوگ غیر مسلموں کے تسلط میں ہیں اور ان غیرمسلموں کے خلاف جہاد کر کے ان سے آزادی حاصل کرنا اور پھر پاکستان میں شامل ہونا ان کا بنیادی مذہبی فریضہ ہے ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے عوام کو کوئی آزادی حاصل نہیں ۔ نہ بولنے کی آزادی، نہ لکھنے کی آزادی، نہ مذہب کی آزادی، نہ زبان کی آزادی، نہ اپنے وسائل پر ملکیت کی آزادی، نہ اپنی شناخت کی آزادی، نہ اپنے لئیے قانون سازی کی آزادی اور نہ اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی آزادی ۔
جہاں تک بھارت کے زیر انتظام علاقوں کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ لوگ پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر آزادیوں سے مستفید ہو رہے ہیں مگر پھر بھی کامل آزادی کا تصور وہاں بھی محال ہے ۔ ببارت کے زیر انتظام علاقوں میں بھی عوام کو اپنے وسائل پر ملکیت، اپنے مستقبل کے تعین کے حوالے سے آپشنز اور اپنے لئیے قانون سازی کی آزادی کے حقوق حاصل نہیں ہیں ۔
2۔ امن
معاشرے میں امن کے لئیے کامل آزادی کا وجود ضروری ہوتا ہے ۔ جہاں آزادی نہیں ہوتی وہاں امن ممکن نہیں ۔ کسی بھی معاشرے میں امن کے قیام کے لئیے آزادی کے علاوہ قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف اور مساوات کا قیام بھی لازمی شرائط ہیں ۔ ریاست جموں و کشمیر میں کے پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں تو شروع سے ہی ان میں سے کوئی بھی عنصر موجود نہیں ۔ لیکن 1990 سے بھارتی زیر انتظام علاقوں میں بھی اب سماجی اور سیاسی امن مفقود ہے ۔ وجوہات کچھ بھی ہوں کسی بھی جگہ امن کا قیام ریاستی مشینری کا بنیادی فریضہ اور عوام کا بنیادی انسانی حق ہوتا ہے اور بھارتی زیر انتظام علاقوں کے عوام بھی امن سے محروم ہیں ۔
3۔ عدل و انصاف
پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں حکومتی اور محکمانہ کرپشن، اقرباء پروری، برادری و قبیلائی تعصبات، سیاسی رشوت ستانی، سیاسی بنیادوں پر امتیازی سلوک، نامناسب قوانین اور جانبدارا عدلیہ کے باعث عوام عدل و انصاف کو ترس رہے ہیں ۔ اس ضمن میں اگرجہ بھارتی زیر انتظام علاقے نسبتاً بہتر آئینی و قانونی کیفیت میں ہیں تاہم وہاں بھی علاقائی و مذہبی امتیاز، اور مرکزی و ریاستی مفادات کے ٹکراؤ کے باعث عدل و انصاف کی صورتحال مثالی نہیں ہے ۔
4۔ مساوات
مساوات کے تصور کو سماجی، قانونی اور معاشی طور پر تقسیم کر کے سمجھا جا سکتا ہے ۔ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کے تمام علاقے سماجی اور معاشی عدم مساوات کا شکار ہیں ۔ اگرچہ قانونی مساوات کے شعبے میں بھارتی زیر انتظام علاقوں کو کسی حد تک پاکستانی زیر انتظام علاقوں پر برتری حاصل رہی ہے مگر 1990 سے جاری کشمیر وادی کی عسکری تحریک نے اس برتری کو بھی اب مٹا دیا ہے اور سیز فائر لائن کے دونوں اطراف اب صورتحال کم و بیش ایک جیسی ہے ۔
5۔ قانون کی حکمرانی
قانون کی حکمرانی کا تعلق عدلیہ کی آزادی، عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات کار اور عمومی سماجی رویوں پر ہوتا ہے ۔ پاکستان چونکہ ایک غیر جمہوری اور عسکری ریاست ہے اس لئیے پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں تو قانون کی حکمرانی کا تصور ممکن نہیں ۔ مگر بھارتی زیر انتظام علاقوں میں بھی گزشتہ تیس سالوں سے صورتحال نہایت ابتری کا شکار ہے ۔ اور یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ سیز فائر لائن کے دونوں اطراف میں قانون کی بالادستی اور فراہمی کا تصور صرف کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔ عملی طور پر ہمارا ملک اس نعمت سے محروم ہے ۔
6۔ خوشحالی
جہاں تک خوشحالی کے تصور کا تعلق ہے تو یہ صرف معاشی خوشحالی تک ہی محدود نہیں ۔ معاشی خوشحالی سے زیادہ سماجی خوشحالی اہم ہوتی ہے اور سماجی خوشحالی کا قیام ریاست اور عوام کے باہمی تعلقات کی نوعیت اور آئین و قانون کی پیروی اور عملداری سے جنم لیتا ہے ۔ ہمارا وطن معاشی خوشحالی کی دولت سے تو اس لئیے محروم رہا ہے کہ ہمارے قدرتی اور انسانی وسائل ہماری اپنی ملکیت میں نہیں رہے ۔ ہمارا ہمیشہ معاشی و اقتصادی استحصال ہوا ہے اور ریاست کی دولت کو ریاست کے عوام پر خرچ نہیں کیا گیا ۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے تمام حصوں میں عوام اور حکمرانوں کے تعلقات کار بھی کبھی بھی مثالی نہیں رہے ۔ ہمارے حکمران اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھنے کے بجائے ان کا حاکم سمجھتے رہے ہیں اور بیرونی قابضین نے اس تصور کو اور زیادہ تقویت دی ہے ۔ ان عوامل کے باعث ہمارے وطن کے تمام حصے معاشی و سماجی خوشحالی سے بدستور ناآشنا ہیں ۔
7۔ عزت و احترام
8۔ اعتماد
9۔ امید
سماجی امید و سکون، معاشرتی اعتماد و خوداعتمادی اور باہمی عزت و احترام کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
جہاں تک عوام کی عزت و احترام کا تعلق ہے تو اس کا انحصار آئین و قانون کی بالادستی و فراہمی، تعلیم و علم و ادب کی کیفییات اور بنیادی سماجی رویوں کی نوعیت پر نوعیت پر ہوتا ہے ۔
معاشرے میں باہمی عزت و احترام کی موجودگی معاشرتی اعتماد اور امید کو جنم دیتی ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں کسی انسان کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنا، گاڑی کا ہارن بجانا اور اونچی آواز میں موسیقی سننا بھی دوسروں کی عزت و احترام کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ تمام سرکاری دفاتر اور حکومتی شعبوں میں عوام کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے ۔ مگر ہماری ریاست میں حکومت ہو یا معاشرے کے بااثر افراد وہ دوسروں کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سماجی و نفسیاتی عارضہ ریاست کے تمام حصوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس لئیے نہ ہی تو ہمارے ملک میں باہمی عزت و احترام کا وجود ہے اور نہ ہی سماجی و انفرادی اعتماد و خوداعتمادی اور امید و سکون جنم لے سکتے ہیں ۔
اس تجزیے کی بنیاد پر میں یہ رایے قائم کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارے ملک میں بنیادی انسانی حقوق دستیاب نہیں اور ابھی عوام کو ان کے حصول کے لئیے ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ بھی ہماری خاطرخواہ مدد کرنے سے عاجز ہیں ۔
تحریر:
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
تاریخ کا غیرجانبداری سے مطالعہ کیجئیے اور اپنے وطن کے سیاسی واقعات کی سچائیوں کا کھوج لگائیے:-
آزادکشمیر کے کچھ دانشور کہتے ہیں کہ 1947 میں مہاراجہ کے مظالم سے تنگ آ کر عوام نے انقلاب برپا کیا اور مہاراجہ کا تختہ اُلٹ دیا، یہ کیسا انقلاب تھا اور کس طرح کا تختہ اُلٹا گیا کہ 15 مئی 1967 تک مہاراجہ ہری سنگھ کا بیٹا ریاست کا آئینی سربراہ رہا ۔ اس ریاست کا جس کے بارے میں یہاں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ایک عوامی انقلاب کے ذریعے اسے آزاد کرایا گیا ۔ جب انقلاب آتا ہے تو جن کا تختہ اُلٹا جاتا ہے ان کے پورے کے پورے خاندانوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ فرانس میں لوئیس XVI کے خلاف انقلاب، روس میں زار کے خلاف انقلاب اور ایران میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف انقلاب اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ یہ کہنا کہ ہم نے مہاراجہ کے خلاف انقلاب برپا کیا ہماری تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔
مہاراجہ ہری سنگھ کا خاندان 15 مئی 1967 تک ریاستی اقتدار میں شریک رہا ۔
مہاراجہ حکومت نہ تو ظالم و جابر تھی اور نہ ہی نااہل کہ اسے ریاستی امور سے بیدخل کیا جا سکتا ۔
دراصل 1947 میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستانی حملے اور اس سازش میں سہولت کاری فراہم کرنے کا مقصد ان علاقوں کو ریاست سے کاٹ کر پاکستان کی تحویل میں دینا اور ریاست کو تقسیم کرنا تھا ۔ صرف یہی دو اہداف تھے 1947 کے غدر کے ۔ اگر عوامی انقلاب یا حقوق کہیں ایجنڈے پر ہوتے تو بنیادی انسانی، سیاسی اور معاشی حقوق کو جس طرح سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں 1947 کے بعد پامال کیا گیا ایسا کبھی نہ ہوتا ۔ سردار ابراہیم صاحب اور کرنل مرزا حسن صاحب کا مقصد عوام کو ڈوگرہ حکومت سے نجات دلانا نہیں تھا بلکہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ ساز باز کر کے ریاستی وسائل کو پاکستانی قبضے میں دینے کے لئیے 1947 میں ریاستی عوام کے حقوق، مفادات اور مستقبل کا سودا کیا ۔ میں آزادکشمیر کے عوام سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ خود تحقیق کریں اور اپنے وطن کی تاریخ اور سیاست کو سمجھیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کا مستقبل ہمیشہ تاریک اور دوسروں کے سائے تلے رہے گا ۔ انہیں کبھی حقوق نہیں ملیں گے اور عوام کبھی خوشحال نہیں ہوں گے ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
برادری ازم کی سیاست:
اس سیاست کے لئیے ایک برادری کی ضرورت ھوتی ھے اور وہ برادری کون لوگ ھیں - ھم سارے - اگر ھم خود برادری کے گرداب میں نہ گریں تو برادری ازم بھی ختم ھو جائے گا اور برادری کی سیاست کرنے والے بھی - ثابت ھوا کہ اصل مسئلہ ھم عوام الناس خود ھیں -
(تحریر ثمینہ راجہ - جموں و کشمیر)
چند مخصوص گهرانوں کی اجارہ داری:
یە اجارہ داری بھی بنیادی طور پر ھمارے سماجی رویوں کے باعث ھی قائم ھوتی ھے - اگر ھم اپنے رویوں کو بدلنے میں کامیاب ھو جائیں تو اس لعنت سے کافی حد تک چھٹکارا مل سکتا ھے - اس اجارہ داری کے پیچھے دوسرا بڑا عمل دولت ھے - اکثر دولت مند لوگ اپنا سماجی مقام اونچا کرنے کے لئیے دولت کا استعمال کرتے ھیں اور کافی حد تک کامیاب بھی رھتے ھیں - لیکن اگر ھم دولت پسندی اور دولت کیشی سے مرعوب ھونے کے بجائے اصول پسندی اور کردار کو اھمیت دیں تو اس لعنت سے نجات ممکن ھے -
غریب کا مسلسل استحصال:
اس استحصال کے پیچھے بھی بنیادی طور پر دولت پسندی ھی کارفرما ھوتی ھے - تاھم قانون اور عدالت نظام کی کمزوریاں بھی اس صورتحال کا موجب بنتی ھیں - گھوم پھر کر بات پھر ھم پر ھی آ کر رکتی ھے - اگر ھم قانون کو مذاق بنانے والوں کے خلاف صف آراء ھو جائیں اور اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کر کے اپنے حکمرانوں کو بہتر قانون سازی پر مجبور کریں تو صورتحال کافی بدل سکتی ھے - اس ضمن میں وکلاء اور سول سوسائٹی اھم کردار ادا کر سکتی ھے -
تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کی ناقص کارگردگی کا بنیادی سبب مناسب قوانین کی عدم موجودگی، عدالتی نظام کی خرابیاں اور قانون پر عملدرامد کے لیئیے سماجی سطح پر قوت ارادی کا فقدان ھمارے اداروں کی تباھی کا سبب ھے -
تبدیلی راتوں رات نہیں آئے گی - یہ عمل خاصا سست رفتار اور صبر آزما ھو گا - تاھم کبھی نہ کبھی اس عمل کو شروع تو کرنا ھی پڑے گا - تو پھر آج اور ابھی سے اس عمل کا آغاز کیوں نہ کیا جائے -
اس ساری تحریک کو منظم کرنے کے لئیے ایک غیر سیاسی سماجی پلیٹ فارم کا قیام بھی کرنا ھو گا جو سارے عمل کو مربوط اور منظم انداز میں آگے بڑھا سکے -
مگر بنیادی بات اقبال والی ھے؛
جو ھو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ھیں زنجیریں -
(ثمینہ راجہ - جموں و کشمیر)
س وقت کشمیر وادی کی جو صورتحال ہے اس پر دنیا کے ہر امن پسند، جمہوریت نواز، محبِ وطن اور عوام دوست سیاسی کارکن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔
بھارت وادی میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کو کچلنے کے لیئے جو حربے استعمال کر رہا ہے اور جس انداز میں کشمیر وادی میں عوامی بغاوت سے نمٹنے کے لیئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
میں پہلے بھی بہت دفعہ لکھ چکی ہوں کہ بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے اور G20 کا ممبر ہے ۔ بھارت اپنا جو چہرہ دنیا کو کشمیر وادی میں دکھا رہا ہے اس سے وادی کے اندر جاری تحریک تو خیر ختم نہیں ہو رہی البتہ بھارت کی ساکھ دنیا میں برے طریقے سے متاثر ہو رہی ہے ۔ یوں وادی کی تحریک کو اس اعتبار سے تحریک کی فتح اور بھارت کی شکست قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب سے تحریک شروع ہوئی ہے بھارت مسلسل گھاٹے میں جا رہا ہے اور ہزاروں جانیں گنوا کر بھی تحریک ابھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے ۔
حریت اور حکومت کی لڑائی میں وادی کے معصوم شہری تباہ و برباد ہو رہے ہیں ۔
محبت اور دوستی سب کے ساتھ
جنگ اور نفرت کسی سے نہیں
امن اور جمہوریت ہماری جدوجہد کا محور ہے ۔
تشدد، جنگ اور طاقت کا استعمال مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ مسائل کو بڑھاتا ہے ۔
ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے بھی نہیں دیا جاتا
میں اس پالیسی کو ایک احمقانہ قدم قرار دیتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ اس طرح کی پالیسیاں فریقین کو ایک دوسرے سے اور زیادہ دور کر دیں گی ۔
میں ذاتی طور پر اس تحریک میں شامل تشدد کے عنصر کی وجہ سے اس کی مکمل حمایت نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی میری ہمدردیاں تحریک کے ساتھ ہیں ۔
میں امن، دوستی، اخوت، بھائی چارے اور عدم تشدد کی قائل ہوں اور سمجھتی ہوں کہ تمام تنازعات اور اختلافات کا واحد اور دیرپا حل فریقین کے درمیان بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔
تشدد، جنگ اور طاقت کا استعمال مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ مسائل کو بڑھاتا ہے ۔
حکومت کی طرف سے طاقت کا اندھادھند استعمال اور تحریک کی طرف سے تشدد کی راہ پر اصرار یکساں طور پر معصوم اور امن پسند عوام کی زندگیوں کو جہنم بنائے ہوئے ہے ۔
دونوں فریقین کو اپنے اپنے موقف میں لچک اور اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
کہ امن اسی طرح ممکن ہو سکے گا ۔
ورنہ جس طرح دو سانڈوں کی لڑائی میں جھاڑیاں تباہ ہوتی ہیں ۔
بالکل اسی طرح
حریت اور حکومت کی لڑائی میں وادی کے معصوم شہری تباہ و برباد ہو رہے ہیں ۔
محبت اور دوستی سب کے ساتھ
جنگ اور نفرت کسی سے نہیں
امن اور جمہوریت ہماری جدوجہد کا محور ہے ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
بھارتی آئین کا آرٹیکل 35A ۔
ریاست جموں و کشمیر کے قوم پرستوں کا موقف اور قومی آزادی کی تحریک کے تقاضے:-
تحریر:-
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
آج کل بھارتی آئین کے آرٹیکل 35A کو لے کر بہت ہنگامہ ہے ۔ مختلف جگہوں پر مظاہرے ہو رہے ہیں کہ اس آرٹیکل کو ختم نہیں ہونے دیا جائے گا ۔
میں ذاتی طور پر اس بات کے حق میں ہوں کہ مستقبل کے کسی بھی آئینی انتظام و انصرام میں آرٹیکل 35A کو لازمی طور پر شامل رینا چاہئیے ۔ یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کے جداگانہ قومی و سیاسی تشخص کا مظہر اور ریاستی عوام کے معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی مفادات کا محافظ ہے ۔ اس لئیے ریاست جموں و کشمیر کے تمام سیاسی کارکنوں کو متحد ہو کر اور اپنے انفرادی اور گروہی اختلافات کو بھلا کر صرف آرٹیکل 35A کے خاتمے کی کسی بھی سازش کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئیے ۔ یہ آرٹیکل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا معاملہ نہیں بلکہ قوم کی شناخت اور عوام کے مفادات کی بنیاد ہے اور اس کا ہر حال میں دفاع ضروری ہے ۔
سب سے پہلے میں قارئین کے سامنے آرٹیکل 35A کا متن پیش کرتی ہوں تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ اس آرٹیکل کی خصوصیات کیا ہیں ۔
اس آرٹیکل کا متن درج ذیل ہے:
☆[{(اس (بھارتی) آئین میں موجود ہونے کے باوجود، ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کوئی بھی موجودہ قانون اور اس کے بعد کوئی بھی قانون جسے ریاستی قانون سازی کے عمل کے ذریعے نافذ کیا جائے:
(a)
ریاست کے مستقل شہریوں کی موجودہ یا مستقبل کی درجہ بندی، یا
(b)
ایسے مستقل شہریوں کو کوئی بھی ایسی مراعات یا حقوق ودیعت کرنے یا دوسرے لوگوں پر کوئی بھی ایسی حدود و قیود لگانے کے لئیے جن کا تعلق
(1) ریاستی حکومت کے ماتحت ملازمت
(2) ریاست کے اندر غیرمنقولہ جائیداد کے حصول
(3) ریاست کے اندر سکونت اختیار کرنے
(4) وظیفوں کے حق اور ریاست کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کی دیگر اقسام
اس بنیاد پر منسوخ نہیں ہوں گی کہ (آئین کے) اس حصے کے تحت حاصل امتیازی (حقوق و مراعات اور اختیارات) بھارت کے دیگر شہریوں کو حاصل (آئینی) حقوق سے متصادم ہیں ۔)}]☆
آرٹیکل 35A کے اس متن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کے قانون ساز اداروں کو اختیارات دیتا ہے کہ وہ ریاست میں مستقل سکونت کے ضوابط کا تعین کریں اور اس بنیاد پر لوگوں کو مراعات و فوائد دیں ۔
گویا دوسرے لفظوں میں بھارتی آئین کا آرٹیکل 35A ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے اور غیر ریاستی باشندوں پر غیرمنقولہ جائیداد کی خرید پر پابندی عائد کرتا ہے ۔
یہ آرٹیکل درحقیقت مہاراجہ ہری سنگھ کے قانون باشندہ ریاست سے اخذ کیا گیا ہے اور ریاستی باشندوں کو وہی حقوق و مراعات دیتا ہے اور غیر ریاستی باشندوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے جنہیں مہاراجہ ہری سنگھ کے قوانین باشندہ ریاست کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا ۔
اس آرٹیکل کو 14 مئی 1954 میں بھارتی آئین میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا ۔ اس صدارتی حکم کا عنوان تھا (آئینی (نفاذِ جموں و کشمیر) حکم 1954 ۔ اور تب سے یہ صدارتی حکم نامہ بھارتی آئین کا حصہ ہے ۔
صدارتی حکم نامے کے اس آرٹیکل 35A کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں کوئی ایسا شخص جو ریاست کا مستقل باشندہ نہیں ہے وہ (1) ریاست میں کوئی غیرمنقولہ جائیداد حاصل نہیں کر سکتا، (2) ریاست میں کوئی سرکاری ملازمت اختیار نہیں کر سکتا اور (3) کسی ایسے پیشہ وارانہ ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتا جسے ریاستی حکومت چلاتی ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے فراہم کردہ کوئی امداد یا وظیفہ حاصل کر سکتا ہے ۔
یہ آرٹیکل نہ صرف ریاستی شہریوں کے لئیے مخصوص حقوق و مراعات کا تعین کرتا ہے بلکہ اس اصول کا تعین بھی کرتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر ریاستی شہریوں کو حاصل ان حقوق و مراعات اور غیر ریاستی شہریوں کے مقابلے میں حاصل امتیازی درجے کو بھارتی آئین کی کسی اور شق کو بنیاد بنا کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے جب 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کیا تو مہاراجہ نے صرف دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے بھارت کے سپرد کئیے ۔ اس عارضی الحاق کے معائدے کے تحت باقی تمام معاملات میں ریاست مکمل طور پر آزاد و خودمختار تھی ۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 1954 کا ملحقہ آئینی آرڈر ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی یونین کے باہمی تعلقات کار کا تعین کرتا ہے ۔
شیخ عبداللہ کی حکومت اور پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت کے درمیان 1952 میں طے پانے والے دہلی معائدے کے تحت ریاست کے مزید اختیارات کو بھارت کے سپرد کر دیا گیا ۔ 1952 کے اس معائدے کے تناظر میں اور اس میں طے کئیے جانے والے اصولوں کے تحت بھارتی آئین کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے 14 مئی 1954 کو ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا ۔ اس آئینی حکم نامے کے ذریعے بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی اور آئینی تعلقات کا تعین کیا گیا ۔ آرٹیکل 35A بھی اسی حکم نامے کا ایک حصہ ہے ۔
اس حکم نامے کی دیگر شقوں کے ذریعے بھارتی شہریت کو ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا لیکن آرٹیکل 35A کے ذریعے مستقل ریاستی باشندوں کے ان حقوق و مراعات کو تحفظ فراہم کیا گیا جن کا تعین 1927 کے مہاراجہ ہری سنگھ کے قوانین باشندہ ریاست میں کیا گیا تھا ۔ مئی 1954 کے اسی صدارتی حکم نامے کے تحت بھارتی آئین کے بنیادی حقوق کو ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو ریاست جموں و کشمیر تک وسیع کیا گیا ۔ بھارت کی مرکزی حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بیرونی حملے کی صورت میں ریاست جموں و کشمیر کے اندر قومی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے ۔ مزید برآں ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ مالی تعلقات کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے ہم پلہ بنا دیا گیا اور ریاست کی اسمبلی کی منظوری کے تابع بھارتی حکومت کو اختیارات دیے گئے کہ وہ بہت سے دیگر معاملات کو سرانجام دے ۔ گویا 1954 کے اس صدارتی حکم نامے کے ذریعے پہلی دفع ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں باضابطہ شامل کرنے کے آئینی کام کا آغاز ہوا ۔
14 مئی 1954 کے جس صدارتی حکم کو بھارتی آئین میں شامل کیا گیا تھا اس کے بعد 11 فروری 1956 سے 19 فروری 1994 تک مزید سینتالیس صدارتی حکم نامے جاری کئیے گئے ۔ ان تمام حکم ناموں کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں مزید ترامیم کی گئیں ۔ ان تمام ترامیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی مرکزی حکومت کے 97 میں سے 94 اختیارات اور بھارتی آئین کی 395 میں سے 260 دفعات کو ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کر دیا گیا ۔ اور ریاستی حکومت کے اختیارات کو نہایت محدود کر دیا گیا ۔ یہ تمام صدارتی حکم نامے ریاستی اسمبلی کی منظوری سے نافذ کئیے گئے ۔
جولائی 2015 میں پہلی دفعہ بھارت کے ایک تھنک ٹینک جموں و کشمیر سٹڈی سنٹر کی جانب سے اس آرٹیکل 35A کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر جموں و کشمیر ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی ۔اس آئینی پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ آرٹیکل 35A کو بھارتی آئین کے دفعہ 368 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین میں شامل کیا گیا ہے ۔ دفعہ 368 اس اصول کو وضع کرتی ہے کہ آئین میں کسی قسم کی ترمیم پارلیمنٹ کی منظوری سے کی جائے گی جبکہ آرٹیکل 35A کے ضمن میں اس اصول کی نفی کی گئی ہے اور اس ارٹیکل کو کبھی بھی منظوری کے لئیے بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ۔
اس بنیادی مسئلے کے علاوہ دیگر کئی قانونی اور آئینی نقاط کو بھی اس رٹ پٹیشن کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔
اس آئینی رٹ پٹیشن میں آرٹیکل 35 A کو ایک غیر آئینی قدم قرار دے کر اس کے خاتمے کی استدعا کی گئی ہے ۔
مگر میں سمجھتی ہوں کہ آرٹیکل 35A کا خاتمہ ریاست جموں و کشمیر کو آئینی طور پر 13 مئی 1954 کی پوزیشن پر لا کھڑا کرے گا ۔ کیونکہ اگر آرٹیکل 35A کو ختم کرنا ہے تو اس سارے صدارتی حکم نامے کو غیرقانونی قرار دینا پڑے گا جس کا نفاذ 14 مئی 1954 کو کیا گیا تھا ۔ اور یوں آرٹیکل 35A کے ساتھ ساتھ وہ دیگر آئینی انتظامات بھی کالعدم ہو جائیں گے جو ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں شامل کرنے کے لئیے اٹھائے گئے تھے ۔
اور یوں ریاست جموں و کشمیر کے شہری نہ صرف بھارتی شہری نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ بھارت کی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کا بھی ریاست جموں و کشمیر میں سے خاتمہ ہو جائے گا ۔ اس کے علاوہ 1956 سے جاری کئیے گئے ریاست جموں و کشمیر سے متعلقہ دیگر صدارتی حکم نامے بھی متنازعہ بن جائیں گے ۔
گویا اس طرح آرٹیکل 35A کا خاتمہ ریاستی حکومت کو وہ بہت سے اختیارات واپس دلوا دے گا جنہیں بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے عارضی الحاق کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست میں نافذ کیا ہے ۔
اس لئیے میں سمجھتی ہوں کہ بھارت آرٹیکل 35A کو برقرار رکھے یا ختم کرے دونوں صورتوں میں اسے ریاست جموں و کشمیر کی الگ قومی شناخت کا اقرار کرنا ہی پڑے گا ۔ بلکہ 14 مئی 1954 کے صدارتی حکم نامے کی منسوخی بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے باہمی سیاسی اور آئینی انتظامات کو منسوخ کر کے ریاست جموں و کشمیر کو واپس 26 اکتوبر 1947 والے آئینی مقام پر لے جائے گی جہاں بھارت کے پاس صرف خارجہ، دفاع اور مواصلات کے تین امور تھے اور دیگر تمام معاملات میں ریاست مکمل طور پر آزاد و خودمختار تھی ۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اب دوبارہ بھارت 14 مئی 1954 جیسے آئینی اقدامات نہیں کر سکتا کیونکہ آج ریاستی عوام اور حکومت 1952 کے شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرو کے دہلی معائدے کے پابند نہیں ۔
یہاں میں یہ بھی وضاحت کرتی چلوں کہ ڈوگرہ حکومت کے 27 اپریل 1927 کے باشندہ ریاست قوانین اور پھر 26 اکتوبر 1947 کا بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کا معائدہ دو ایسی دستاویزات ہیں جو ریاست جموں و کشمیر کی الگ سیاسی اور قومی شناخت کا حصار ہیں ۔ ڈوگرہ حکومت کے یہ قوانین و اقدامات اتنے موثر، جامع اور قومی شناخت کے اس طرح محافظ ہیں کہ بھارت اور پاکستان مل کر بھی اکہتر سالوں کی مسلسل کوشش کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کے الگ سیاسی اور قومی وجود کو ختم نہیں کر سکے ۔
جس طرح ڈوگرہ حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی شناخت اور ریاستی عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئیے قانون سازی کی تھی اور پھر اپنے قوانین کو بنیاد بنا کر جو عملی اقدامات کئیے تھے؛ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری قوم متحد ہو کر ڈوگرہ حکومت کی سیاسی بصیرت اور قومی تشخص کے جذبے کو مشعل راہ بنا کر ریاست کے تشخص کی بقاء اور ریاستی عوام کے معاشی، سیاسی اور سماجی مفادات کے آئینی اور قانونی تحفظ کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرے ۔
میں آخر میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 35A کے خاتمے سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے کسی ممکنہ فیصلے کے خلاف شور شرابہ کرنے والے لوگوں سے یہ سوال کروں گی کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 35A ریاستی شہریوں کو جو حقوق دیتا ہے وہ گلگت بلتستان میں 1974 سے کُلی طور پر معطل ہیں جب کہ آزادکشمیر میں بھی ان میں سے اکثر حقوق منسوخ کیئے جا چکے ہیں؛ جو لوگ بھارتی زیر انتظام علاقوں میں سے آرٹیکل 35A کو ختم کرنےط کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں انہوں نے پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں ان حقوق و مراعات کے خاتمے کے خلاف آج تک کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی؟
یہ دوغلا پن کس بات کو ظاہر کرتا ہے؟
اس منافقت کا مقصد کیا ہے؟
کیا پاکستان جب حقوق غصب کرے تو وہ جائز ہے؟
اور اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا؟
کیا آرٹیکل 35A کے خلاف موجودہ احتجاج ریاستی عوام کے حقوق کے لئیے ہے؟ یہ حقوق تو پاکستان نے بھی غصب کر رکھے ہیں ۔ یہاں خاموشی کیوں؟
یاد رکھئیے جب تک ریاستی شہری پاکستان اور بھارت دونوں کو یکساں طور پر نشانہ نہیں بناتے انہیں کبھی بھی حقوق یا آزادی نہیں ملے گی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست میں حقوق و آزادی کی تحریک کو پاکستان کے اثر سے نکال کر خالصتاً قومی آزادی کے اصولوں اور بنیادوں پر منظم کیا جائے ۔
کامیابی کی واحد راہ یہی ہے ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیر میں مذہب کے ٹھیکیدار خاک و خون کے سوداگر-:
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
کشمیر وادی جسے 1989 سے قبل فردوسِ بریں، رنگ و نور کا بسیرا اور خوشبوؤں اور سبزہ زاروں کی بستی کہا جاتا تھا ، گزشتہ تین دہائیوں سے آگ و بارود کی بُو میں ڈوبی ہوئی ہے ۔
ایسا کیوں ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟ سبب کیا ہے؟
اس ساری خرابی کا بنیادی سبب ریاست کا مذہبی بیانیہ ہے ۔ وادی میں انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں اور عوامی مسائل و مصائب کے حل کی جدوجہد نہیں ہو رہی بلکہ اسلام اور کفر کی جنگ جاری ہے ۔ وادی کا اصل مسئلہ جنت اور جہنم کا بنا دیا گیا ہے ۔ جنت میں کس نے جانا ہے اور جہنم کس کا مقدر ہے اس امر کے فیصلے (نعوذ بالله) آج کل سری نگر میں کئیے جاتے ہیں ۔ ساری سیاست دو قومی نظریے کی اور تکمیل پاکستان کی ہے ۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اب پاکستان کہتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا حصہ ہیں جن پر ہندو بھارت قابض ہے ۔ اور جس جس نے جنت کا حقدار بننا ہے اُسے ہندوؤں کے چنگل سے کشمیر وادی اور ملحقہ مسلم اکثریتی علاقے چھڑا کر پاکستان میں شامل کرنے کا کام کرنا ہے ۔
چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کی خاطر پاکستان دہشت گردوں کو مسلح کر کے وادی میں جہاد کے لیئے بھیجتا ہے ۔ یہ جہادی جو اکثر پنجاب کی جیلوں میں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں یا سزائے موت کے منتظر ہوتے ہیں، انہیں پاکستان کی ایجینسئیاں جیلوں سے نکال کر کشمیر مخں جہاد کے لئیے بھیج دیتی ہیں ۔
یہ جرائم پیشہ جہادی جو ویسے ہی پاکستان کی جیلوں میں سڑ رہے ہوتے ہیں انہیں بھی آزاد فضاؤں میں زندگی گزارنے کا یہ موقع غنیمت لگتا ہے ۔
آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام ۔
جیل سے نجات اور اوپر سے جہاد ۔۔۔ جب تک لڑ رہے ہیں غازی بنے ہوئے ہیں اور مال و دولت اور عیش و عشرت سے زندگی گزر رہی ہے اور جب مر جائیں گے تو شہید اور جنت کے وارث، اوپر سے بہتر حوریں مفت ۔
یہ ہے ساری سیاست ۔
چنانچہ پنجاب کی جیلوں سے نکال کر جہاد کے لئیے کشمیر میں آنے والے یہ پاکستانی مجاہد بھارتی فوج اور پولیس پر مسلح حملے کرتے ہیں اور پھر آبادیوں میں چھپ جاتے ہیں ۔
ان کے تعاقب میں جب سیکورٹی ایجینسیاں سول آبادیوں میں گھستی ہیں، تو ان جہادیوں کو مارنے کے ساتھ ساتھ معصوم اور نہتے شہری بھی ان بھارتی ایجینسیوں کے ہاتھوں جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کا شکار بن جاتے ہیں ۔
یہ ہے ایک کہانی جو تیس سال سے بار بار، ہر بار اور ہر دن کئی بار دہرائی جاتی ہے ۔
نتیجہ وادی کا امن ، خوشبو اور لالہ و گل سب کچھ کھو گیا ۔
جہاں پاکستان جہادیوں کو وادی میں داخل کر کے وادی کے لوگوں کو بھارتی فوجی طاقت کے روبرو کھڑا کرتا ہے وہیں بھارت نیشنل سیکورٹی کے نام پر ان جہادیوں کا قلع قمع کرنے کے لیئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتا ہے اور اس دوطرفہ پاک بھارت دشمنی اور کفر و اسلام کی جنگ میں مرتے صرف کشمیری ہیں ۔ پاکستان جہاد بھی کرنا چاہتا ہے اور کشمیر کو حاصل بھی کرنا چاہتا ہے مگر ان مقاصد کے حصول کے لئیے اپنی فوج استعمال نہیں کرتا (پتہ نہیں پاکستانی فوجیوں کو شہادت کی سعادت سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے) بلکہ یہ کام صرف کشمیریوں اور پاکستان کی جیلوں سے مفرور مجرم جہادیوں سے کروایا جاتا ہے ۔
میں وادی کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنے دیش کو اس خاک و خون کے آسیب سے نکال کر پرامن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کا مہذب طریقہ اپنائیں ۔
بھارت جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے اس کے پاس کشمیر وادی میں نہتے شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلنے کا کوئی جواز نہیں ۔ حالات خواہ کیسے بھی ہوں ، دنیا کی کوئی مہذب اور جمہوری ریاست اپنے نہتے، معصوم اور بے بس و لاچار شہریوں کو خود خاک و خون میں نہیں نہلا سکتی ۔
مذہب اور نیشنل سیکورٹی کے نام پر ریاستی شہریوں کا قتلِ عام اب بند ہونا چاہیئے ۔
بہت ہو چکا ۔ اب مزید نہیں ۔
بھارت کو کسی بھی صورت میں وادی میں طاقت کے غیرمتوازن استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ بھارت کو اپنی روش بدلنی ہو گی ۔ نیشنل سیکورٹی کے نام پر شہریوں کی ہلاکتوں کو مہذب دنیا میں کسی صورت بھی قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ لیکن ساتھ ہی وادی میں جہاد کی بھی کوئی گنجائیش نہیں ۔۔۔ ہم کسی بھی صورت میں کسی قسم کی جہادی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ ریاستی شہریوں کو مذہبی منافرت اور جنت متحد کر میں خاک و خون میں نہلانے کے اس کھیل کو اب بند ہو جانا چاہئیے ۔
میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ آئیے سب مل کر امن کی بحالی اور پرامن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی شروعات کرتے ہیں ۔ مسئلہ گولی سے نہیں بولی سے حل ہو گا ۔
یہی مسئلے کا واحد حل ہے ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات !!!
یومِ شہدائے جموں؛
محرکات اور حقائق !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
آج 6 نومبر ہے ۔۔۔۔
آج کے دن 1947 میں۔۔۔۔
جموں سے مسلمان مہاجرین کا ایک قافلہ سیالکوٹ کے لئیے روانہ ہوا ۔۔۔۔۔
یہ قافلہ جو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر مشتمل تھا؛ من میں ارمانوں کے دیپ جلائے اور آنکھوں میں ایک خوبصورت مستقبل کے خواب سجائے جموں سے روانہ ہوا۔۔۔۔
مگر کبھی بھی سیالکوٹ نہ پہنچ سکا !
اس قافلے کے ساتھ شیخ عبداللہ صاحب (جو ریاست جموں و کشمیر کے چیف ایگزیکٹو اور ریاست میں موجود بھارتی افواج کے کمانڈر تھے) نے کوئی فوجی حفاظتی دستہ مامور نہ کیا ۔
چنانچہ اس صورتحال میں موقع غنیمت جان کر جموں سے سیالکوٹ جانے والے اس مسلمان مہاجرین کے قافلے کو مسلح ہندو اور سکھ دہشت گردوں نے ڈیگیانہ اور سامبہ کے درمیانی علاقے میں روکا، نوجوان عورتوں کو الگ کیا اور قافلے کے باقی افراد (جن میں بوڑھے مرد اور عورتیں، جوان مرد اور بچے سبھی شامل تھے) کو گولیوں اور کلہاڑیوں سے مار ڈالا ۔ چند لوگ لاشوں اور زخمیوں کے بیچ میں دبک گئے اور جب حملہ آور یہ یقین کر لینے کے بعد کہ قافلے کے سارے لوگ مارے جا چکے ہیں نوجوان عورتوں کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے تو زندہ بچ جانے والے لوگ چھپ چھپا کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔ زندہ بچ جانے والے ان افراد کے بیانات کے مطابق یہ بدقسمت قافلہ تیس بسوں پر مشتمل تھا ۔
قتل و غارتگری، لوٹ مار ، دہشت گردی اور اغواء کا یہ سانحہ جموں میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی ان مسلح کاروائیوں کا نقطہ عروج تھا جو ستمبر سے جموں میں اکا دُکا طور پر جاری تھیں ۔
ہندو مسلح جتھوں اور بلوائیوں کے ہجرت کرنے والے مسلمان قافلوں پر حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے مسلمانوں کی یاد میں ہی پاکستان اور آزادکشمیر میں 6 نومبر کو یومِ شہدائے جموں منایا جاتا ہے جس کے ذریعے جموں کے مسلم کُش فسادات کی مذمت کی جاتی ہے ۔ دہشتگردی، لوٹ مار اور قتل کے ان واقعات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے اور بہت سی عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ۔
دراصل یہ قتل و غارتگری صرف مہاجر قافلوں کے خلاف ہی نہیں کی گئی بلکہ جموں کے بہت سے گاوں اور قصبے بھی دہشت گردی کے ان واقعات کی زد میں آئے اور ضلع کٹھوعہ کی لگ بھگ آدھی مسلمان آبادی اس سے متاثر ہوئی ۔
ستمبر کے مہینے میں موھالہ رام نگر میں سینکڑوں گوجروں کا قتلِ عام اور جموں کنٹونمنٹ میں رائے پور گاؤں کی آتشزنی کا سانحہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
جموں کے یہ واقعات بلاشبہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کا بہت بڑا مجرمانہ اقدام تھا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
جموں کے اس قتلِ عام کی بالواسطہ ذمہ داری ریاست جموں و کشمیر کی انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے جو 6 نومبر کے مسلمان مہاجرین کے قافلوں کو کوئی تحفظ فراہم نہ کر سکی ۔
اس امر کا تعین کیا جانا ضروری ہے کہ 6 نومبر کو مسلمان مہاجرین کےقافلوں کی قتل و غارتگری کے یہ واقعات کیوں اور کیسے رونما ہوئے ۔ جب یہ واقعات رونما ہوئے تو ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی سربراہ شیخ محمد عبداللّہ تھے ۔۔۔ وہ کسی بھی صورت میں اس قتلِ عام کے دھبے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتے ۔ کیونکہ 9 نومبر کو بھی مسلمان مہاجرین کے قافلے پر اسی طرح کے حملے کیئے گئے تھے، مگر قافلوں کی حفاظت کرنے والی فوج کی جوابی کاروائی سے 150 حملہ آور مارے گئے تھے اور پھر اس کے بعد کبھی بھی کسی قافلے پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگر 9 نومبر جیسے حفاظتی انتظامات 6 نومبر کو بھی کر لیئے جاتے تو مسلمان مہاجرین کا یہ قتلِ عام روکا جا سکتا تھا ۔
لیکن ہماری قومی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اس قسم کے واقعات پر مؤرخین نے پرلے درجے کی جانبداری کے ساتھ لکھا ہے اور واقعات کی حقیقی نوعیت اور انکے اسباب و محرکات پر غیر جانبدارانہ اور شفاف تجزیہ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ۔
اس ستم ظریفی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برِصغیر کی تقسیم ایک انتہائی نامناسب اور غیر معقول انداز میں اٹھایا گیا قدم تھا اور اس کا مقصد برِصغیر کے لوگوں کو آپس میں لڑانا، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنانا اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ برطانوی استعمار اور عالمی سامراج کے شکنجے میں جکڑ کر رکھنا تھا ۔
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ برِصغیر کے وہ لوگ جو کئی صدیوں سے مذہبی اختلافات کے باوجود باہم شِیر و شکر ہو کر رہتے چلے آئے تھے وہ اچانک 1947 میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں بن گئے تھے؟
دراصل یہ برطانوی حکومت کی ایک انتہائی شاطرانہ سازش تھی جس کے تحت عوام کے اندر غلط فہمیوں، افواہوں اور مخاصمت کی وہ فضاء پیدا کر دی گئی تھی جو فطری طور پر 1947 کے بلوؤں، لوٹ مار اور قتل و غارتگری پر منتج ہوئی ۔
جموں کا 6 نومبر کا قتلِ عام بھی اسی بڑے منظر نامے کا ایک حصہ ہے ۔
انگریزوں نے جب برِصغیر کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تو ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کے حوالے سے ایسے کسی منصوبے کو رد کر دیا اور برِصغیر کی تقسیم کے تناظر میں ایک آزاد اور مکمل طور پر خودمختار مملکتِ جموں و کشمیر کا تصور پیش کیا ۔ انگریزوں کو مہاراجہ کے اس منصوبے سے اس بنیاد پر اختلاف تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک آزاد و خودمختار مملکتِ جموں و کشمیر ان کے وسیع پلان کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے ۔
اس لئیے انگریزوں نے نہایت چالاکی اور مکاری کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے خودمختار ریاست کے تصور کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔ ریاست جموں و کشمیر کی آزادی و خودمختاری کا خاتمہ کرنے کے لئیے پاکستانی فوج کے انگریز آرمی چیف جنرل فرینک میسروی کی نگرانی میں آپریشن گلمرگ تیار کیا گیا جس کے تحت 22 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں و کشمیر پر قبائلی حملہ کیا گیا ۔
6 نومبر 1947 کا جموں کا قتلِ عام بھی انگریزوں کی مذہبی تقسیم کی سازشوں کا ہی شاخسانہ تھا ۔
انگریز تمام کام ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق کر رہے تھے، وہ تمام معاملات و واقعات میں حد درجہ جانبدار تھے ۔
اسی بنیاد پر انگریزوں کے تمام اخبارات اور انگریز مؤرخین اپنے منصوبے کے مطابق 1947 کے واقعات کے بیان میں انتہائی جانبداری کے ساتھ حد درجہ غلط بیانی اور زہر افشانی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
برطانوی روزنامے لنڈن ٹائمز نے 6 نومبر کے جموں کے سانحے کو اسی انگریز سازش کے تحت توڑمروڑ کر پیش کیا ۔
اسی طرح سٹیٹس مین کے ایڈیٹر ایان اسٹیفن نے اپنی کتاب ھارنڈ مون میں بھی واقعات کا جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے ۔
ہاریس الیگزینڈر نے 16 جنوری 1948 کے سپیکٹیٹر اخبار میں بھی واقعات کا جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے ۔
ہاریس الیگزینڈر اور ایان اسٹیفن دونوں نے 1947 کے دوران جموں کے قتلِ عام میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 200,000 بیان کی ہے ۔ لنڈن ٹائمز نے یہ تعداد 237,000 بتائی ہے ۔ جبکہ اکثر مسلمان اور پاکستان نواز مؤرخین سانحہ جموں کی اموات کا شمار 500,000 سے بھی زیادہ میں کرتے ہیں ۔ یہ ایک علمی بددیانتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیمِ برِصغیر کے تناظر میں تمام فریقین اپنے اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لیئے زور لگاتے رہے ہیں اور اس ضمن میں واقعات اور حالات کے حقیقی پہلوؤں کو جان بوجھ کر مسخ کیا جاتا رہا ہے ۔
6 نومبر کو جموں کے مہاجرین قافلے میں سے زندہ بحچ کر سیالکوٹ پہنچنے والے تعلیم یافتہ عینی شاہدین کے مطابق 6 نومبر کا قافلہ تیس بسوں پر مشتمل تھا ۔۔۔۔ اب قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قافلے میں کل کتنے افراد شریک ہوئے ہوں گے؟
مسلمان اور پاکستان نواز مؤرخین جموں کے نومبر کے ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں ہندو اور مسلمان کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ کہ برِصغیر کی تقسیم اور پاکستان کا قیام مسلمانوں کے بقاء اور ترقی و خوشحالی کے لیئے ضروری تھا ۔ اور اگر یہی فارمولا اب ریاست جموں و کشمیر میں بھی نافذ نہ کیا گیا تو ہندو ریاستی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے ۔ دراصل یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا ہے اور اس کا واحد مقصد ریاست جموں و کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور اس کے مسلم اکثریتی علاقوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوا اور کچھ نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ نومبر میں جموں میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام کے واقعات کا بنیادی سبب ریاست جموں و کشمیر کی انتظامی مشینری کی نااہلی تھا، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو 9 نومبر کے مسلمان مہاجرین کے قافلے کا بھی قتلِ عام ہوتا اور ایسے واقعات بعد میں بھی جاری رہتے ۔
نومبر 1947 کا جموں کا سانحہ دراصل تقسیمِ برِ صغیر کے تناظر میں مغربی پنجاب، پخوتونخواہ اور پھر خود جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے ان ظالمانہ اور سفاکانہ واقعات کا ردِعمل تھا جو ان علاقوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں غیرمسلموں کے خلاف روا رکھے گئے تھے ۔
اپریل 1947 سے ہی جموں میں ہندوؤں کے ان لُٹے پِٹے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جو مارچ 1947 میں راولپنڈی، اٹک، مری، بنوں اور ہزارہ کے ہندوکُش فسادات کے بعد بھاگ کر جموں پہنچے تھے ۔ پاکستان بنتے ہی پاکستان کے مغربی اضلاع سے 160,000 ہندو جموں کی طرف نقل مکانی کر گئے ۔ صرف سیالکوٹ کے شمال مشرقی علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد ڈوگرہ ہندو جموں اور گورداسپور کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔ ستمبر 1947 کے وسط تک صرف جموں شہر میں 65,000 ہندو مہاجرین داخل ہوئے ۔ یہ مہاجرین اپنے ساتھ پیش آنے والی مسلمانوں کی زیادتیوں کے قصے سناتے تھے اور ان قصوں اور کہانیوں کو اخبارات اور سرکاری میڈیا نے انگریزوں کے منصوبے کے مطابق بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا ۔
صورتحال میں بگاڑ کا ایک اور بڑا سبب سیالکوٹ اور مغربی پنجاب سے انڈین آرمی کی سکھ یونٹ کا بھاگ کر جموں جانا تھا ۔ یہ سکھ فوجی اپنے ساتھ اسلحہ بھی لے گئے تھے اور جموں پہنچتے ہی اپنے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیئے انہوں نے مسلمانوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیئے ۔
جموں میں آباد مسلمانوں کی اکثریت پنجابی بولنے والوں پر مشتمل تھی جن کے مغربی پنجاب کے شہروں اور قصبوں کے ساتھ جغرافیائی، لسانی، معاشی، ثقافتی اور خونی رشتے تھے ۔ یہ مسلمان پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کو ترجیح دیتے تھے جسے جموں کے جنگجو ہندو ڈوگرہ راجپوت پسند نہیں کرتے تھے ۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق صرف صوبہ جموں کے مشرقی علاقوں میں 305,000 ہندو ڈوگرہ راجپوت اور برہمن اور 10,000 سکھ رہائش پزیر تھے ۔ ان لوگوں کے کانوں تک جب مغربی پنجاب میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوؤں آور سکھوں پر ہونے والی مظالم کی تفصیلات پہنچیں تو ان کی جموں کی پنجابی بولنے والی مسلمان آبادی کے خلاف نفرت اور بڑھ گئی ۔
اس پس منظر میں ہندوؤں اور سکھوں نے جموں کے مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کر دئیے ۔ ان حملوں میں بہت سی اموات بھی ہوئیں ۔
ستمبر کے مہینے میں جموں کے محلہ رام نگر میں سینکڑوں مسلمان گوجروں کو قتل کیا گیاجبکہ جموں کنٹونمنٹ کے مسلم اکثریتی گاؤں رائے پور کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا ۔
ان واقعات کے بعد جموں سے مسلمانوں نے مغربی پنجاب کی طرف ہجرت شروع کر دی اور ستمبر کے اواخر تک جموں کی مسلمان آبادی تقریباً آدھی رہ گئی ۔
ان حالات میں 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی جتھوں نے مظفرآباد سے ریاست میں داخل ہو کر لوٹ مار اور قتل و غارتگری شروع کر دی ۔ قبائلی یوں تو تمام شہریوں کو بلا امتیاز لوٹتے تھے مگر انہوں نے عمومی طور پر ریاست کی ہندو آبادی کو نشانہ بنا کر ان کا قتلِ عام شروع کر دیا جبکہ نوجوان عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ ان واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جموں کے ہندوؤں اور سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔
جب جموں سیالکوٹ ریلوے سروس معطل ہو گئی تو جموں کے مختلف علاقوں سے مسلمان پولیس لائنز جموں کے کیمپ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ان لوگوں نے پاکستان حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان ہجرت کرنے کے لیئے ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے ۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت پاکستان نے جموں سے مہاجرین کو سیالکوٹ لانے کے لیئے بہت سی گاڑیاں ارسال کیں ۔
یہ جب گاڑیاں جب 6 نومبر کو جموں سے مسلمان مہاجرین کو لے کر سیالکوٹ کے لیئے روانہ ہوئیں تو انہیں جموں سیالکوٹ روڈ پر ہندو اور سکھ مسلح بلوائیوں نے روک لیا اور قافلے کے زیادہ تر مردوں کو قتل کر دیا اور انکی عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ جو لوگ جان بچانے میں کامیاب ہوئے وہ لُٹے پِٹے سیالکوٹ پہنچ گئے ۔ ان لوگوں نے بتایا کہ جموں سے تیس لاریوں کا قافلہ مہاجرین کو لے کر سیالکوٹ کے لیئے روانہ ہوا تھا، جسے ڈیگانہ اور سامبہ کے درمیان جموں سیالکوٹ روڈ پر ستواری کے مقام پر روک کر قتل کیا گیا ۔ اسی قتلِ عام کی یاد میں ہر سال 6 نومبر کو یومِ شہدائے جموں منایا جاتا ہے ۔
ممکن ہے اس قافلے سے پہلے بھی کسی قافلے پر حملہ کیا گیا ہو مگ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا گیا اور غالب امکان یہ ہے کہ 6 نومبر کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ تھا کیونکہ جموں سے مہاجرین کو لے جانے کے لیئے بسیں پاکستان سے بھیجی گئی تھیں اور ان تمام بسوں کا ایک ساتھ سفر کرنا ہی قرینِ قیاس ہے ۔ اور 6 نومبر کے بعد تو قافلوں کو فوجی دستوں کے حفاظت کے بغیر ویسے بھی نہیں بھیجا گیا تھا ۔
درحقیقت 6 نومبر 1947 کا جموں کے مسلمانوں کا یہ قتلِ عام اپریل سے ہندوؤں کے خلاف جاری تشدد اور قتل و غارتگری کے واقعات کا ردِ عمل اور شیخ عبداللّہ کی حکومت کی نااہلی کے باعث رونما ہوا ۔ اس واقعے کو بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے روکا جا سکتا تھا مگر لگتا یہ ہے کہ اقتدار میں موجود لوگوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں اور وہ ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے کی پالیسی پر گامزن تھے ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نومبر میں جموں اور اس کے گرد و نواح میں مسلمانوں کا وہی حشر ہوا جو 22 اکتوبر سے مظفرآباد سے بارہ مولا تک پاکستانی فوج کی قیادت میں قبائلی حملہ آور ہندو اور سکھوں کا کرتے آ رہے تھے اور جیسا پنجاب اور پختونخواہ میں اپریل سے ہو رہا تھا ۔
ان تمام واقعات میں انتہا پسند مذہبی گروہ شریک تھے مگر یہ واقعات ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق حکامِ بالا کی سرپرستی میں ترتیب دئیے گئے تھے اور ان کا مقصد برِصغیر کی مسلم اور غیرمسلم آبادی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے تقسیم کرنا تھا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرامن، نہتے اور بے بس و لاچار شہریوں کو صرف اور صرف ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے انتہائی سفاکانہ اور غیرانسانی طریقے سے قتل کرنے اور عورتوں کو ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے عصمت دری کا نشانہ بنا کر اپنے مذہبی عقائد تبدیل کرنے پر مجبور کر دینے کے اس عمل کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
میں اور میرے ساتھ ریاست بھر کے عدل و انصاف اور اعلی' انسانی قدروں پر یقین رکھنے والے ریاستی شہری ان واقعات کی بھرپور مذمت تو کرتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ ان انسانیت سوز سانحات کے اسباب کی تہہ میں پہنچ کر مستقبل میں عوام کو ایسے واقعات کے پیچھے کارفرما مذہبی انتہاپسندی کی آگ سے بچانا بھی چاہتے ہیں ۔ تا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لئیے ایک پرامن، سماجی عدل و انصاف پر مبنی روشن مستقبل کی فراہمی کی کوئی صورت پیدا کی جا سکے ۔
6 نومبر کا یہ دن آزادکشمیر حکومت سرکاری سطح پر مناتی ہے ۔ 6 نومبر کے علاوہ آزادکشمیر میں 5 فروری، 19 جولائی، 14 اگست، 6 ستمبر اور 24 اکتوبر کے دن بھی سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں ۔
ان تمام دنوں پر ریاستی وسائل کو بےدریغ طریقے سے خرچ کر کے عوام کے دل و دماغ ماضی کے من گھڑت واقعات اور جھوٹی تاریخ کے قصوں سے زہرآلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ آزادکشمیر حکومت نے 1947 سے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے یہ اسی سوچ اور رحجان کا تسلسل ہے جس کے باعث 6 نومبر کا یہ سانحہ رونما ہوا تھا ۔ میں آزادکشمیر کی حکومت کی اس ملک دشمن اور امن کش پالیسی کی بھی بھرپور مذمت کرتی ہوں اور ریاست جموں و کشمیر کے تمام سیاسی کارکنوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ آزادکشمیر حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کریں ۔
آزادکشمیر حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد ریاست جموں و کشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اس ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں کے وسائل کو پاکستان کی تحویل میں دینا اور ان علاقوں کو جغرافیائی طور پر پاکستان کے ساتھ شامل کرنا تھا اور آزادکشمیر حکومت 1947 سے اپنے اس مقصد اور ہدف کی تکمیل کے لیئے سرگرداں ہے ۔
دراصل آزادکشمیر حکومت کو ریاست جموں و کشمیر کی یکجہتی اور ریاستی عوام کی خوشحالی و ترقی سے کوئی سروکار نہیں اور اس حکومت کے ایجنڈے میں یہ امور شامل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت پاکستانی ایجینسئیوں کی سربراہی میں عوام کے درمیان مسلسل مذہبی منافرت اور دشمنی پیدا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے ۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئیے نہ صرف یہ کہ بے بنیاد اور من گھڑت جھوٹی تاریخ مرتب کی گئی ہے بلکہ ماضی کے تمام واقعات کو توڑ مروڑ کر اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت اور دشمنی کو ہر ممکن حد تک پروان چڑہایا جا سکے ۔
مگر ستر سال گزرنے کے بعد اب ریاستی عوام آزادکشمیر حکومت کی اس چال کو سمجھ گئے ہیں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے تمام حکومتی اور سرکاری سازشوں کا قلع قمع کرنے کے لئیے مکمل طور پر چوکس و تیار ہیں ۔
دراصل آزدکشمیر حکومت کی پالیسیوں کا مقصد ریاستی عوام کی شناخت ختم کر کے انہیں پاکستان میں ضم کرنا اور ریاست کے تمام وسائل کو ریاستی عوام کے بجائے پاکستانی ریاست کی ضروریات اور مفادات کے لئیے صرف کرنا ہے ۔
اسی لئیے آزادکشمیر حکومت 11 فروری، 16 مارچ، 28 اپریل، 13 مئی، 13 اگست، 22 اکتوبر اور 25 نومبر جیسے دنوں پر سرے سے کوئی بات نہیں کرتی ۔
میں 6 نومبر کے دن شہید ہونے والے پرامن اور بے بس شہیدوں کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرتی ہوں لیکن ساتھ ہی 22 اکتوبر، 25 نومبر اور اس دوران شہید ہونے والے ان تمام نہتے اور بے بس غیر مسلم ریاستی شہریوں کے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل عام کی بھی مذمت کرتی ہوں جو آزادکشمیر حکومت کی ایماء پر ریاست بھر میں قتل ہوئے ۔
آزادکشمیر حکومت 6 نومبر کو جموں سیالکوٹ شاہراہ پر شہید ہونے والے ہزاروں مسلمانوں سمیت ان لاکھوں ریاستی مسلمان اور غیرمسلم شہریوں کے قتل، عورتوں کی عصمت دری اور اغواء کی بالواسطہ اور براہ راست ذمہ دار ہے جو 1947 کے مذہبی جنونی حالات کی بھینٹ چڑے ۔
بلکہ نہ صرف 1947 کے واقعات کی ذمہ داری آزادکشمیر حکومت پر عائد ہوتی ہے بلکہ 1947 سے لے کر سیزفائر لائن کی دونوں اطراف میں شہید ہونے والے ہزاروں افراد کی شہادت کے علاوہ لاکھوں شہریوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی تحقیر و تذلیل کی ذمہ داری بھی آزادکشمیر حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔
6 نومبر کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم شہیدوں کے خون کو رائیگاں نہ جانے دیں اور اور اپنی آئیندہ نسلوں کو آزادکشمیر حکومت اور اس کی سرپرست ایجینسئیوں کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے لئیے ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کی یکجہتی اور کامل آزادی کی تحریک کو منظم اور موثر بنائیں ۔
ہزاروں شہدائے جموں سمیت 1947 کے دیگر لاکھوں ریاستی شہداء کا خون ہم پر قرض ہے اور اس قرض کی ادائیگی صرف اور صرف اس نظام کی بربادی کے ذریعے ممکن ہے جس کو تشکیل دینے کے لئیے ریاست جموں و کشمیر کی دھرتی کو معصوم اور نہتے شہریوں کے خون سے رنگا گیا ۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
5 نومبر
یومِ سقوطِ میرپور
پاکستان نے 22 اکتوبر 1947 کو آپریشن گلمرگ کے تحت ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا پر حملہ کیا اور 24 اکتوبر 1947 کو مظفرآباد میں اپنی طفیلی حکومت قائم کی ۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
مگر میرپور پر پاکستانی حملہ آور فوجی اور قبائلی 24 نومبر 1947 تک قبضہ نہ کر سکے ۔ میرپور بدستور سرینگر حکومت کے انتظام و انصرام میں تھا ۔ میرپور میں ریاستی فوج کے محض چند فوجی موجود تھے ۔ میرپور کے گرد حفاظتی فصیلوں کی وجہ سے قبائلی میرپور شہر میں داخل نہ ہو سکے ۔ میرپور شہر کے شہریوں اور وہاں مقیم فوجیوں نے سرینگر حکومت سے متعدد بار میرپور کی حفاظت کرنے کے لئیے مزید فوجی کمک بھیجنے کی اپیل کی، شیخ عبداللہ صاحب جو ریاست کے منتظم اعلی' تھے انہوں نے وعدہ بھی کیا کہ وہ میرپور کو بچانے کے لئیے مزید فوجی کمک ارسال کریں گے مگر یہ فوجی کمک کبھی نہ پہنچی ۔ ان حالات کو پاکستانی فوج نے بھی بھانپ لیا ۔ چنانچہ 24 نومبر کی رات اور 25 نومبر کی صبح کو منگلا سے پاکستانی فوج نے توپخانے کے ذریعے میرپور پر گولہ باری کی ۔ اس گولہ باری کے ساتھ قبائلیوں اور پاکستانی فوج نے میرپور پر حملہ کر دیا اور شہر کی حفاظتی دروازوں کو توڑ کر شہر میں داخل ہو گئے ۔
میرپور پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ میرپور کے شہریوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے ۔
مظفرآباد حکومت نے میرپور کے شہریوں سے کہا کہ وہ علی بیگ کیمپ میں چلے جائیں اور وہاں سے انہیں جموں بھیج دیا جائے گا ۔
چنانچہ میرپور سے 25 نومبر کی صبح 25 ہزار افراد پر مشتمل ایک قافلہ علی بیگ کے لئیے روانہ ہوا ۔ اس قافلے کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک الگ داستان ہے ۔ علی بیگ سے صرف ڈیڑھ ہزار افراد کو جموں بھیجا گیا ۔
میرپور سے جو 25 ہزار کا قافلہ روانہ ہوا تھا اس کے باقی لوگ راستے میں قتل کر دیئے گئے، عورتوں کو اغواء کر لیا گیا، حتی' کہ علی بیگ میں بھی قتل اور اغواء کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔
اگر شیخ عبداللہ صاحب اپنے وعدوں کے مطابق میرپور میں فوجی کمک بھیج دیتے تو میرپور پر کبھی بھی قیامت نہ ٹوٹتی ۔
25 نومبر یومِ سقوطِ میرپور ہے ۔ یہ دن ہماری قومی تاریخ کے ماتھے پر بے شمار سوالات رقم کر گیا ۔
24 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر کی حکومت قائم ہو جانے کے باوجود ایک ماہ تک میرپور کو تسخیر کیوں نہ کیا جا سکا؟
شیخ عبداللہ صاحب نے فوجی کمک کیوں نہ بھیجی؟
آزاد جموں و کشمیر حکومت نے غیرمسلم قافلوں کا تحفظ کیوں نہ کیا؟
اس طرح کے اور بھی متعدد سوالات ابھرتے ہیں ۔
تاہم 24 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر حکومت قائم ہو جانے کے باوجود میرپور پر ایک ماہ تک قبضہ نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ 1947 میں ریاستی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عوامی بغاوت ہو جانے کی ساری کہانیاں سب جھوٹی اور من گھڑت ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو میرپور پر آزاد جموں و کشمیر حکومت کے قیام کے فوراً بعد قبضہ کر لیا جاتا ۔
میں 1947 میں میرپور شہر اور ریاست کے دوسرے حصوں میں پاکستانی فوج اور قبائلیوں اور مقامی بلوائیوں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں سے غیر مشروط معافی مانگتی ہوں ۔ اور توقع کرتی ہوں کہ جموں میں جو کچھ مسلمان شہریوں کے ساتھ ہندو اور سکھ انتہا پسندوں نے کیا اس کی بھی غیر مشروط معافی مانگی جائے گی ۔
ہماری موجودہ نسل کو اب ماضی کی ان بھیانک غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا ۔
اب جبکہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا میں اکہتر سال کے بعد تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان سیز فائر لائن کی دونوں اطراف ایک بار پھر جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی اشتراکِ کار کا آغاز ہو چکا ہے اور قومی یکجہتی اور ریاست کی وحدت کی بحالی کی باضابطہ جدوجہد شروع ہو چکی ہے؛ میں امید کرتی ہوں کہ ہمارے ملک میں آئیندہ کبھی بھی مذہبی تعصب اور جنون کی بنیاد پر کوئی قتل و غارتگری نہیں ہو گی کہ ستر سال کے بیرونی قبضے اور تسلط نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے دیش پر اپنا اختیار ہی دنیا کی سب سے بٹی نعمت ہوتی ہے ۔
آئیے سب مل کر عہد کریں کہ ہم ایک مرتبہ پھر سے اپنے وطن کی جغرافیائی اور قومی وحدت کو بحال کر کے ملکی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کا وہ سفر پھر سے شروع کریں گے جو 1947 میں اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی غداری کے باعث متروک ہو گیا تھا ۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
There is once again talks of another war between India and Pakistan.
And this war is to be fought in Jammu and Kashmir.
Why?
Global powers like the US, the UK, Russia and France make arms and munitions and they need some field to test them, so they create wars in the world and then test their weapons on humans in infrastructure to calculate the accuracy and effectiveness of the weapons.
Same is the case with India and Pakistan. Both countries need some field to test their weapons and effectiveness of their war strategy. And this field is the State of Jammu and Kashmir.
I plead to both India and Pakistan to STOP this game of war and urge all peace loving citizens of India and Pakistan to force their governments to stop all thus.
But if India and Pakistan really feel that they need another war, the people of Jammu and Kashmir should stand up together and demand that the war between India and Pakistan should be fought on their International border.
We, the people of Jammu and Kashmir, are not a laboratory and we won't let our people to die uselessly and mercilessly for the cause of Pakistan and India.
We are human beings as well and we have also got an ambition to live a peaceful life, so no war in our name.
Please STOP this nonsense.
Sameena Raja J&K.
A Brief Introduction" of All Times Greatest Ruler of Jammu & Kashmir
Maharajah Hari Singh
( 23 September 1895 - 26 Aprilb1961 )
Written by : Sameena Raja - J&K
Maharajah Hari Singh was great grandson of the founder of the State of Jammu and Kashmir Maharajah Gulab Singh.
Born on 23 September 1895 at Amar Mahal Jammu , Maharajah Hari Singh was the only surviving son of General Raja Amar Singh Jamwal who was the younger son of Maharajadhiraj Sir Sir Ranbir Singh and brother of Lieutenant General Maharajadhiraj Siri Sir Partap Singh.
Maharajah Hari Singh was an educated person and ascended the throne of the State of Jammu and Kashmir on the death of his uncle Maharajah Partap Singh.
Maharajah Hari Singh announced in his very first speech after ascending the throne of Jammu and Kashmir that his religion shall be justice. He made primary education compulsory, prohibited child marriages and opened the places of worship to low castes.
He was very keen to give a special status to people of J&K and to achieve this objective he implemented State Subject Rules in Jammu and Kashmir which provided iron shield to the properties and jobs of the people of Jammu and Kashmir against rest of the Indian Subcontinent.
Maharajah Hari Singh was the first ruler in the history of J&K who introduced democratic system in the State. He was influenced by the British political system and democratic system of government and showed a great desire to establish the similar political and governance systems in J&K.
He had a great vision for his homeland and worked tirelessly to strengthen the State institutions and fought an important battle to stop foreign influx of migrants and foreign interference into internal affairs of J&K.
This is a misconception or an intentional manipulation of history to claim that he couldn't defend his Homeland against a few Tribals from Pakistan in 1947 and acceded to India to save himself.
In fact Maharajah Hari Singh only acceded to India to stop further slaughtering of innocent civilians at the hands of Pakistani armed forces and invading Tribals. Had he not taken the timely step to accede to India (conditionally though), not a single non Muslim would have been alive in the State of J&K.
Maharajah Hari Singh was a man of principles and democratic norms. He resigned from his government office and handed over his official position to his son as his staunch political and ethnic rival Sheikh Abdullah was made Prime Minister of J&K under the deal of accession.
Maharajah Hari Singh wished to establish constitutional monarchy in J&K on the lines of UK, Japan, Switzerland, Belgium and many other great democracies of the world but internal and foreign conspiracies didn't let him achieve his goal after the division of Indian Subcontinent.
Had he been given more time to implement his political and administrative plans in J&K, we would have been one of the greatest democracy and a very rich country on the globe.
Written by
Sameena Raja J&K
The Real National Narrative Of The State Of Jammu And Kashmir.
By Sameena Raja - J&K
Main Features of the State Narrative are as under:
1. State of Jammu and Kashmir was founded on 16 March 1846 through the Treaty Of Amritsar.
2. Maharajah Gulab Singh is the founder of this State.
3. Later on areas of Gilgit Baltistan were annexed to the State and it’s boundaries were finally determined in 1885, total area of the State was pronounced to be 85806 sq miles. These boundaries were recognised by Britain, China and Russia.
4. 4th Dogra king Maharajah Hari Singh formulated State Subject Rules in 1927. These rules established the State as a National State.
5. In 1947 puppets of Britain, Pakistan and India joined hands to divide the State. Pakistan invaded the State on 22nd October 1947 which forced State government to seek Indian military help in exchange of temporary accession treaty.
6. The State government handed in Defence, Foreign Affairs and Currency to the Indian Union and the State was internally independent under the accession treaty having its own President, Prime Minister, Judicial System, Constitution and National Flag.
7. The State is a multi ethnic, multi religious and multi nationalities entity.
8. The State is now divided among China, India and Pakistan and can only be reunited through peaceful democratic and political struggle.
9. The State has tremendous natural resources and if these resources are spent on the people of the State, they can become richest and most prosperous nation of the region.
10. National And political autonomy of the State can only be restored under an exclusive secular social set up. No other political system or social philosophy can bring about peace and reunification in the State.
11. Reunification of the State is the prime political objective at the moment and no other option can guarantee the protection of identity, economic prosperity and political stability for the people of Jammu and Kashmir.
12. People of the State can only reunite if an indigenous struggle is organised under the State identity and all its National Features which existed on 15 August 1947.
اکثر لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ ستمبر 1947 میں پونچھ میں مسلح بغاوت شروع ہو چکی تھی -
خوراک اور پیٹرول کی ترسیل بند ہو گئی تھی نتیجتاً کشمیر کی فوج کی نقل و حرکت محدود ہو گئی تھی
اور وہ باغیوں کو قابو میں کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے -
(میرے کچھ سوالات ہیں ایسے لوگوں سے )
پونچھ میں ستمبر یا اوائل اکتوبر میں کونسی مسلح بغاوت تھی؟
کتنے سرکاری دفاتر پر باغیوں کا مسلح قبضہ تھا؟
کتنے فوجیوں، سرکاری افسران یا پولیس اہلکاروں کو باغیوں کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا اور انکے نام کیا ہیں؟
جب مظفرآباد میں پاکستان نے 22 اکتوبر کو حملہ کیا تو سرکاری افسران، پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو قتل کر دیا گیا، جیل توڑ دی گئی اور سرکاری املاک کو نذرآتش کر دیا گیا -
پونچھ کی مسلح بغاوت میں ایسا ایک بھی واقعہ کیوں نہ ہوا؟
باغی حکومت کا نظام کیسے چل رہا تھا اسکے اقدامات پر کیسے
عملدرآمد ہوتا تھا؟
ان اہم ترین تاریخی اہمیت کے حامل واقعات کا کیا ثبوت ہے؟
مسلح بغاوت تو گلگت میں ہوئی تھی جب مہاراجہ کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا گیا تھا -
اور اس بغاوت کے ایک ایک لمحے کا ریکارڈ موجود اور محفوظ ہے -
یە کونسی مسلح بغاوت ہے جس کا نہ کوئی ثبوت ہے نہ ریکارڈ؟
محض طلسماتی قصے اور داستانیں ہیں -
تاریخ کے ایک غیر جانبدار طالبعلم کی حیثئت میں ھم ان مافوق الفطرت داستانوں پر یقین کر سکتے ہیں کیا؟
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
"ہم سوچیں گے کہ اپنا مستقبل کس سے وابستہ کریں۔"
یہ بولنے کا حق صرف ریاست جموں کشمیر و تبتہا کی عوام کو ہے کہ ہمیں اپنا مستقبل کسی کے ساتھ وابستہ کرنا ہے
یا پھر اپنے بازوؤں، اپنی قوت پر اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے قومی عزت اور وقار کے ساتھ بنا کسی سہارے کے خود کھڑا ہونا ہے۔
دُنیا کی کوئی قوت کوئی طاقت ہمارے اس حق پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ اور ہم اپنی رائے اور فیصلے کیلئے حق اور اختیار رکھتے ہیں۔ یہ غاصب ظلم اور جبر اور تمام استحصالی ہتھکنڈوں کے باوجود ہم سے ہمارا حق چھین نہیں سکتے اور نہ ہی ہم کسی کو اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے دیں گے۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور اس پر غیر ممالک بھارت اور پاکستان کے قبضے کا سلسلہ 22 اکتوبر 1947 کو شروع ہوا ۔ ریاست کو اپنی گرفت میں لینے کی یہ کاوش بھارت اور پاکستان نے یکم جنوری 1948 تک جاری رکھی ۔ مگر جب دونوں ممالک کی انگریز فوجی قیادت اور سول اسٹیبلشمنٹ نے کسی ایک ملک کو دوسرے پر مکمل برتری حاصل نہ کرنے دی تو معاملہ یکم جنوری 1948 کو اقومِ متحدہ میں پیش کرا دیا گیا ۔
اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کروا دی اور مسئلے کو حل کرنے کے لیئے ایک کمیشن بنا دیا گیا ۔
اس کمیشن نے اپنی سفارشات مرتب کیں مگر بھارت اور پاکستان نے کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون نہ کیا جس کے باعث معاملہ لٹکتا چلا گیا ۔ ایک سال یوں ہی گزر گیا ۔ اس دوران اقوام متحدہ نے دو قراردادیں بھی پاس کیں (ان میں سے اہم ترین قرارداد 13 اگست 1948 کو منظور کی گئی) ۔ مگر اس وقت کی ریاستی سیاسی قیادت کی ناسمجھی اور اغیار کے ھاتھوں میں کھیلنے کے عمل کے باعث 5 جنوری 1949 کو پاکستان کی تحریک پر اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر کو قومی آزادی کا تنازعہ قرار دینے کے بجائے بھارت اور پاکستان کا سرحدی تنازعہ قرار دے دیا اور ہماری بدنصیبی کہ یہ سب ستم پاکستان اور بھارت نے ریاستی سیاسی قیادت کو سبز باغ دکھا کر کیا اور ریاستی سیاسی قیادت اس قومی شناخت کی چوری پر نہ صرف یہ کہ خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ پاکستان اور بھارت کی پالیسی کی مکمل طور پر ہمنوا بھی رہی ۔
یہ ریاست جموں و کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک
کے لیئے سب سے بڑا سانحہ تھا ۔ اور یہی وہ سانحہ تھا جس نے عملاً ریاست کی قومی آزادی کی تحریک کو دفن کر دیا ۔ اور ستم بالائے ستم کہ یہ صورتحال ستر سال گزرنے کے بعد بھی برقرار ہے ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیر کے لوگ کسی صورت میں بھی پاکستان کے ماتحت نہیں رہیں گے ۔ یہ ڈرامے کسی طور قبول نہیں کیئے جائیں گے ۔ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ کاملُ آزادی اور خودمختاری کے علاوہ کسی بھی انتظام کو قبول نہیں کریں گے ۔ نواز ناجی صاحب لگتا ہے ابھی ابھی سوئے ہوئے جاگے ہیں ۔ پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ شاید بھول رہے ہیں ۔ یا پھر پتہ نہیں کسی اور دنیا سے آئے ہیں ۔ انہیں پتہ نہیں کہ پاکستان 1947 سے کس راہ پر چلُ رہا ہے اور عوام کو کتنے حقوق ملے ہیں ۔
یہ سرکس اب مزید نہیں چلے گا ۔
ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے مفادات اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا ۔ یہ فیصلہ پاکستان یا بھارت کے مسائل اور مفادات کی بنیاد پر نہیں ہو گا ۔
یہ دوغلا پن چھوڑ کر صرف اور صرف اپنے عوام کی بات کریں ۔
پاکستان کے مسائل کا حل ہماری ذمہ داری نہیں ۔ پاکستانی اپنے مسائل خود حل کریں ۔ ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہیں ۔ ہمیں آزادی چاہیئے ۔
ثمینہ راجہ جموں و کشمیر
جموں و کشمیر میں اکہتر سال کی آذادی نے یہ نظام دیا ہے قوم کو ۔
1947
کے بعد کوئی بھی حکمران ریاست جموں و کشمیر کا انتظام نہیں چلا سکا، عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار کی بنیادی سہولیات تو خیر کیا فراہم ہونی تھیں پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقوں میں کسی بھی حادثے یا آفت کی صورت میں عوام کو بچانے اور ان کی حفاظت کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ۔
دھیرکوٹ کا سارا بازار صرف اس وجہ سے جل کر ماسٹر ہو گیا کہ آگ بجھانے کے لئیے عوام کے پاس کوئی سہولت نہیں تھی ۔
یہ ہے اکہتر سال کی آزادی اور اسلامی اخوت و بھائی چارے کا منہ بولتا ثبوت ۔ عوام کو جو کچھ 1947 میں حاصل تھا اب وہ بھی حاصل نہیں ۔
دنیا آگے کی طرف بڑھتی ہے اور ہمارا ملک پیچھے کی طرف دوڑ رہا ہے ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیرکے
مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کےساتھ 26 اکتوبر
1947
کے الحاق کے بعد بھی 20 جون 1949 تک سری نگر حکومت کا سربراہ رہا ۔
دراصل مہاراجہ کے الحاق کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب تک جنگ بندی نہیں ہو جاتی مہاراجہ حکومتی معاملات کو خود دیکھے گا ۔
جو بندہ 22 اکتوبر 1947 کے حملے کے بعد 20 جون 1949 تک خود حکومت کا سربراہ رہا
اس کو یہ کہتے ہیں کہ بھاگ گیا تھا ۔
20 جون 1949 کے بعد مہاراجہ حکومت اپنے جانشین ڈاکٹر کرن سنگھ کو دے کر خود حکومتی معاملات سے علیحدہ ہو گیا ۔
اور 20 جون 1949 سے 17 نومبر 1952 تک ریجنٹ کے طور پر ڈاکٹر کرن سنگھ حکومت کا سربراہ رہا ۔ پھر 17 نومبر 1952 سے 30 مارچ 1965 تک ڈاکٹر کرن سنگھ ریاست کا منتخب صدر رہا ۔ 30 مارچ 1965 کو جب صدر ریاست کا منصب ختم ہوا تو ڈاکٹر کرن سنگھ کو گورنر بنا دیا گیا اور اس منصب پر ڈاکٹر کرن سنگھ 15 مئی 1967 تک فائز رہا ۔
گویا 22 اکتوبر 1947 کے پاکستانی حملے کے بعد لگاتار 15 مئی 1967 تک مہاراجہ ہری سنگھ اور پھر اس کا جانشین مسلسل حکومت کا سربراہ رہا ۔ تو یہ کس طرح کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ بھاگ گیا تھا؟ 22 اکتوبر کے حملے کے بعد تقریباً پونے دو سال تک تو مہاراجہ خود سری نگر حکومت کا سربراہ رہا ۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چند سو قبائلیوں کے حملے کے بعد مہاراجہ بھاگ گیا تھا ان کو میں کیا نام دوں؟
ملکی تاریخ مسخ کرنے کی اس سے بڑی مذموم سازش اور کیا ہو گی
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر
Copyright © 2022 National Equality Party JKGBL - All Rights Reserved.